سائنس دان ’ماہر امراض اطفال کی پیشہ ورانہ پریکٹس‘ کے لیے ایسا روبوٹ ایجاد کرنے میں کامیاب ہوگئے جو بالکل چھ سالہ بچے کی طرح برتاﺅ کرتا ہے اور اسے تمام بیماریاں بھی لاحق ہوتی ہیں۔
ویسے تو روبوٹ کھانا بناسکتے ہیں، بڑھئی کا کام کرسکتے ہیں اور موبائل میں چپ تک انسٹال کرسکتے ہیں یہ سائنس کی وہ کرامات ہیں جس پر اب کوئی حیران بھی نہیں ہوتا لیکن ابھی ایسا اور بھی بہت کچھ ہے جو آپ کو حیرانگی کے سمندر میں غوطہ زن کرسکتا ہے۔
میڈیکل سائنس میں مشاہدات اور تجربات نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں لیکن ان تجربات کے لیے ’ زندہ رضا کاروں‘ اور مردہ اجسام کی دستیابی ہمیشہ سے ایک مسئلہ رہی ہے۔ مردہ اجسام پر تجربات جتنا کراہت بھرا عمل ہوتا ہے اتنا ہی مردہ جسم کی دستیابی مشکل کام ہے اور اگر بات بچوں کے امراض پر تحقیق کی ہو تو یہ مسئلہ اور گھمبیر ہوجاتا ہے۔
سائنس دان طویل تحقیق کے بعد ایک ایسا روبوٹ تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے جو نہ صرف یہ کہ بات چیت کرتا ہے بلکہ اپنی جسمانی تکالیف کو محسوس اور بیان کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور یہ اپنے طبی مسائل پر ڈاکٹرز کے سوالات کا جوابات بھی دیتا ہے۔
یہ روبوٹ چھ سالہ بچے کی طرح ہے۔ روشی ڈالنے پر آنکھیں جھپکا سکتا ہے، درد و تکلیف میں رو سکتا ہے یہاں تک کہ زخمی ہونے پر اس کے جسم سے خون بھی بہہ سکتا ہے۔ اس انسانی روبوٹ کو آکسیجن کی کمی ہوسکتی ہے، دل کا مرض بھی لاحق ہوسکتا ہے اور اس کی شوگر بھی بڑھ سکتی ہے۔
سائنس دانوں نے یہ حیران کن روبوٹ بچوں کے امراض پر مشاہدات اور تجربات کے لیے ایجاد کیا ہے تاکہ زیر تربیت ڈاکٹرز نہ صرف امراض اطفال کا معائنہ و مشاہدہ کرسکیں بلکہ بیماری کے دوران بچوں کی نفسیات کا مطالعہ بھی کرسکیں اور ان مشاہدات و تجربات کو عملی زندگی میں استعمال کر کے انسانیت کی خدمت کرسکیں۔
778