عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 446

لانگ مارچ یا سازش۔۔۔!

مارچ، مارچ، مارچ کے ذریعے پورے ملک میں ہیجانی کیفیت پیدا کی جارہی ہے۔ مارچ کرنے والوں سے ڈھول اور بینڈ باجا بجانے والے زیادہ متحرک دکھائی دے رہے ہیں جو اپنے ڈھول کی تھاپ پر دوسرے تماشائیوں کو بھی اس ہلے گلے میلے کا حصہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ غرض ہر کوئی انتہائی خوبصورتی سے نہ صرف اپنا کردار ادا کررہا ہے بلکہ اپنی اداکاری میں حقیقت کا رنگ ڈالنے کی بھی کوشش کررہا ہے۔ اب سوچنے اور غور کرنے والی بات یہ ہے کہ اس سارے کھیل اور ناٹک کا ڈائریکٹر کون ہے۔۔۔؟ اس کا اسکرپٹ کس نے لکھا ہے۔۔۔؟ اور اس سارے ناٹک کرنے کا مقصد کیا ہے۔۔۔؟ بظاہر تو اسے وزیر اعظم کے استعفیٰ دینے کا ٹائیٹل دیا گیا ہے مگر ایسا نہیں ہے نہ تو ان کا مقصد وزیر اعظم کے استعفیش سے ہے اور نہ ہی حکومت گرانے سے۔ اور نہ ہی اس طرح کے عوامی شو سے کبھی حکومتیں گرتی ہیں اور نہ ہی سربراہ مملکت مستعفیٰ ہوتے ہیں اور نہ ہی انہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ جمہوریت میں اس کا ایک باقاعدہ طریقہ موجود ہے۔ بعض مبصرین اور صحافی اس سیاسی شو کو 1977ءکے نو ستارے والے شو سے ملانے اور اس سے موازنہ کرانے کی کوشش کرتے ہیں اس حد تک تو درست ہے کہ اس سیاسی شو میں بھی مذہب کارڈ کا استعمال کرکے عوامی جذبات کو ایندھن کے طور پر استعمال کیا گیا تھا اور اس سیاسی شو میں بھی مذہبی جذبات کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا جارہا ہے لیکن ان دونوں سیاسی شوز میں جو سب سے بڑا فرق ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت کی فوجی اسٹیبلشمنٹ بھٹو کی مخالفت میں اس نوستاروں کی تحریک کی پشت پر تھی لیکن اس وقت کچھ بھی ایسا نہیں ہے اس وقت اس تحریک کی پشت پر کرپٹ مافیا کے سوا اور کوئی نہیں۔ اس کرپٹ مافیا میں صحافت اور تجارت کے ٹائیکون کے علاوہ عدلیہ کے بعض مہرے بھی شامل ہیں اور بعض ملک دُشمن قوتیں بھی اس سیاسی شو کی بلواسطہ یا براہ راست طور پر مالی مدد کررہے ہیں۔ اس سیاسی شو پر ڈھول بجانے اور بینڈ باجے والے تو اتنے آگے بڑھ چکے ہیں کہ انہیں یہ یقین ہو چکا ہے کہ عمران خان کی حکومت چند دنوں کی مہمان ہے اور چند دنوں بعد نئی حکومت آجائے گی۔ انہیں یہ یقین ہو چکا ہے کہ اگر کسی بھی ادارے نے عمران خان یا اس کی حکومت کو بچانے کی کوشش کی تو نعوذباللہ آسمان گر کر زمین پر آجائے گا اور یہ ملک تباہ ہو برباد ہو کر رہ جائے گا۔
مجھے تو ڈر ہے کہ اگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تو ان بے چاروں کے دن میں دیکھے گئے خواب چکنا چور ہو جائیں گے جب کہ ایسا ہی ہونا ہے۔ یہ سیاسی شو چند روز بعد اپنی موت آپ ہی مر جائے گا اور اس سیاسی شو پر اپنے تصوراتی تاج محل بنانے والے منہ چھپائے ادھر ادھر نظر آئیں گے۔ میں پہلے بھی ان ہی سطور میں لکھ چکا ہوں کہ جس کسی نے بھی اس ناٹک کا اسکرپٹ لکھا ہے اس کا تعلق کسی نہ کسی طرح سے پڑوس دشمن ملک سے ضرور ہے اس لئے کہ اس سیاسی شو سے سب سے زیادہ نقصان ہی اس کشمیر کاز کو پہنچا جسے 70 برسوں بعد دوبارہ سے نئے جوش و جذبے کے ساتھ عمران خان نے زندہ کیا اور فائدہ ان انتہا پسند ہندوﺅں اور ان کی تنظیم آر ایس ایس کو پہنچا جسے سب سے پہلے پوری دنیا میں کشمیر کے تنازع کے تناظر میں عمران خان نے دہشت گرد کی حیثیت سے متعارف کروایا۔
آج پورے ہندوستان میں ہندو پاکستان میں ہونے والے اس سیاسی شو کی تعریفین کررہے ہیں اور بڑے دعوے کے ساتھ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ جو کام مودی حکومت اور اس کی سفارتی ٹیم نہ کر سکی وہ کام اس سیاسی شو کے ذریعے کرادیا گیا۔ خود عمران خان کے 27 ستمبر کے اقوام متحدہ میں کئے جانے والے تاریخی خطاب کا اثر ان کے اپنے ملک میں نکالے ہوئے سیاسی شو کے ذریعے زائل کرادیا۔ پڑھنے والے خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس شو کے ڈائریکٹر کون ہوسکتے ہیں؟ اور اس کا اسکرپٹ کہاں لکھوا ہوا ہوگا؟ اور اس شو کا مقصد کیا تھا؟ اور اس طرح سے اس شو کی مدد میں بینڈ باجے اور ڈھول بجانے والے اتنی تعداد میں کس طرح سے راتوں رات جمع ہو کر متحرک بھی ہوگئے۔ یہ ایک بہت بڑی سازش ہے، ریاست پاکستان کے خلاف کم اور کشمیر کے خلاف زیادہ۔ اگر خدانخواستہ یہ سازش کسی بھی طرح سے کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کا سب سے زیادہ نقصان کشمیریوں کو پہنچے گا اور پاکستان پھر کبھی بھی کرپشن مافیا کے خلاف اُٹھ نہیں سکے گا اور نہ ہی ریاست کسی ”گاڈ فادر“ یا ”سسلین مافیا“ کو قانون کے تابع بنا سکے گی بلکہ ریاستی ادارے ”گاڈ فادر“ کے گھر کی لونڈی کا کردار ادا کرنے لگ جائیں گے۔ جس طرح سے پنجاب میں پچھلے 20 سالوں سے ہوتا آرہا ہے۔ اس وجہ سے ملکی عوام کو چاہئے کہ وہ اپنے اور اس ملک کے خلاف ہونے والی اس سازش کا حصہ بننے کے بجائے اس کی مخالفت کریں تاکہ سازش کرنے والے اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہونے پائیں۔
اسی طرح سے پاکستان کی سنجیدہ ذمہ دار اور محب وطن میڈیا کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ملکی عوام کو اصل صورتحال سے آگاہ کریں کہ اس اسلام آباد مارچ اور اس کے شرکاءکے مقاصد کیا ہیں؟ وہ جنہیں عوام نے انتخابات میں شکست فاش سے دوچار کیا وہ کس منہ سے حکومت گرانے اور وزیر اعظم کے مستعفی ہونے کا مطلابہ کررہے ہیں؟ ایک کشمیر کمیٹی پر ایمان کا سودا کرنے والے کس طرح سے ملک کی سربراہی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ یہ وقت ملک میں افراتفری کا نہیں بلکہ ملک میں قانون کی حکمرانی کا ہے۔ قانون کی حکمرانی کے بغیر ملک میں اس طرح کی سیاسی اور صحافیانہ بلیک میلنگ چلتی رہے گی۔ اس لئے وزیر اعظم عمران خان اور ملکی پالیسی سازوں کو چاہئے کہ وہ قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائیں اور انصاف میں درجہ بندی کا خاتمہ کریں۔ انصاف جرم کی نوعیت کو دیکھ کر کیا جائے۔ مجرموں کے مرتبے اور ان کی حیثیت کو دیکھ کر نہیں۔ حکومت کو چاہئے رولز آف لاءپر کوئی سمجھوتہ نہ کریں اور حکومت کی رٹ کو ہر حال میں برقرار رکھیں۔ مگر کسی کے ساتھ نا انصافی نہ ہو۔ یہ ہی ایک خوشحال اور بدلتے ہوئے پاکستان کا تقاضا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں