سیاسی رسم 557

مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر

مسجد کی جگہ مندر تعمیر کرکے انڈیا کی جمہوری حکومت پر یہ عمل چہرے پر ایسے داغ کی طرح ہے۔۔ جو دنیا بھر میں ایک شیطانی چہرے کو ظاہر کرتا ہے۔۔جب کسی جمہوری ریاست پر مذہب کے نام پر شہریوں پر تشدد عام ہو جائے تو ایسی ریاست کہیں کی بھی نہیں رہتی ہیں۔۔۔انڈیا میں آج جو سلوک مسلمانوں کے ساتھ ہے کل یہ سلوک کسی اور مذہب کے ساتھ بھی ہوگا۔۔ انڈیا میں موجود انتہا پسند ہندو تلوار کی نوک پر جبرن اپنے ناجائز مقصد کوپورا کر رہے ہیں۔۔ ایسے مقصد کو جس کا حکم دنیا کا کوئی مذہب نہیں دیتا۔ حالاکہ ہندو مذہب کی تاریخ ان انتہا پسند ہندوکے عمل کو غلط بتاتی ہے۔ پانچ اگست کو انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی نے ملک کی شمالی ریاست اترپردیش کے شہر ایودھیا میں متنازع رام مندر کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے۔ پاکستان کے جانب سے رام مندر کا سنگ بنیاد رکھے جانے کی تقریب میں مذمب کرتے ہوئے کہا کہ ایک تاریخی مسجد کے مقام پر مندر کی تعمیر نام نہاد انڈین جمہوریت کے چہرے پر داغ کی مانندہے۔وہ زمین جس پر بابری مسجد 500 برس تک کھڑی رہی ہوئی تھی۔۔ وہاں مندر کی تعمیر قابل مذمت ہے۔عدالت کا مندر کی تعمیر کی اجازت دینے کا فیصلہ نہ صرف آج کے انڈیا میں اکثریت کے بڑھتے ہوئے غلبے کا مظہر ہے بلکہ یہ بھی دکھاتا ہے کہ کیسے مذہب انصاف پر غلبہ ہو رہا ہے اور آج انڈیا میں اقلیتوں کو خاص طور پر مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہیں۔آج بات بابری مسجد تک محدود نہیں ہیں۔ انڈیا میں موجود کافی مساجد اب تک شہید ہوگئی ہیں۔۔ جس پر کوئی قانونی ردعمل پیش نہیں آیا۔۔ اس کے ساتھ مسلما نوں کے اہل خانہ ہو بھی دہشت گردی کا شکار بنایا ہے۔۔پہلے مسلمان لڑکوں کو بے سبب شہید کیا گیا اور اب ان کی نفرت کا شکار پورے مسلمان اہل خانہ ہے۔۔ جس کی اہم وجہ صرف ایک ہندو ریاست قائم کرنا ہے۔۔ یہ انتہا پسند ہندو تشدد کے زور پر اپنی شیطانی طاقت دیکھ رہیں ہے۔اور یہ ہی شیطانی طاقت آنے والے وقت میں ان کی سب سے بڑی غلط بننے گ?ی۔۔یہ جس ریاست کا خوب دیکھ رہیں وہ ریاست اگر قائم ہو بھی گئی تو زیادہ وقت تک رہے نہیں سکے گی۔۔پانچ اگست کو ہی مندر کی بنیاد رکھیں گی۔۔ اسی تاریخ کو گزشتہ برس مودی سرکارنے آرٹیکل 370کو منسوخ کرکے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی۔۔اور وادی کو دو یونین ٹریٹری میں تبدیل کر دیا تھا۔ شدت پسند ہندو قوم پرست جماعت وشواہندو پر یشد یا ورلڈ ہندو آرگنائریشن کے مطابق پانچ اگست کی تاریخ علم نجوم کے مطابق ہندوﺅں کے لیے نیک شگون ہے اس لیے اسی دن مندر کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ گذشتہ 5 اگست کے بعد سے اب تک مقبوضہ کشمیر میں معمول کی سرگرمیاں بحال نہیں ہوسکی ہیں۔۔ اور بھارتی فوج کی جانب سے مسلسل آپریشن کے نام پر کشمیری نوجوانوں کو شہید اور گرفتار کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔۔ بزرگ کشمیری حریت رہنما سید علی گیلانی نے 5 اگست کو کشمیریوں سے مکمل ہڑتال کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا۔۔ کہ یہ دن برصغیر کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔انڈیا میں اس وقت اقلیت کے نام پرجنازہ نکلا رہا ہے۔۔ اگر پاکستان میں اقلیتوں کے بارے میں جائزہ کیا جائے۔ تو پاکستان انڈیا سے لاکھ درجہ بہتر نظر آئے گا۔ پاکستان میں موجود ہندو برادری ایک عام پاکستانی کی طرح زندگی بسر کرر ہے ہیں۔ بغیر کسی خوف اور ڈر کے اپنی عبادت گاہوں میں پوجا کے لیے جاتے ہیں۔۔ کچھ وقت قبل پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع ڑوب میں سو سالہ قدیم مندر کو 70 سال بعد ہندو برادری کے حوالے کر دیا گیا۔۔
قیام پاکستان کے بعد ہندو برادری کی نقل مکانی کرنے کی وجہ سے اس مندر کی عمارت میں سرکاری اسکول قائم تھا۔۔ مندر کے احاطے میں منعقدہ تقریب میں ڈپٹی کمشنر ڑوب طحہ سلیم اور جمعیت علماءاسلام کے رہنما مولانا اللہ داد کاکٹر نے ہندوبرادری کے رہنماوں کو مندر کی چابیاں حوالے کیں۔۔ مذہبی ہم آہنگی کی یہ ایک اچھی مثال ہے۔۔اس طرف کے عمل ہی کسی جمہوری ریاست میں قائم اقلیتوں کے بارے میں انصاف سے زندہ نظر آتی ہیں۔۔ مساجد کو شہید کر کے اپنی عبادت گاہ بنانا دنیا کا کوئی مذہب اس بات کو تسلیم نہیں کرے گا۔مودی حکومت کے دور میں اب تک کہیں منفی کارروائیاں مسلمانوں کے خلاف ہو چکی ہیں۔جس میں انڈیا کے میڈیا کا بھی سر فہرست اپنا منفی کام انجام دے رہا ہے۔۔ آج انڈیا کے مسلمان اپنے اوپر تشدد برادشت کر کے سچے حب الوطنی ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔۔ اور ساتھ اس بات کو تسلیم کر رہے ہیں۔۔ دو قومی نظریہ 100فیصد درست تھا۔۔ ایک اسلامی ریاست کا قائم ہونا مسلمانوں کے لیے بہت اہم تھا۔۔مذہب کے نام پر ہونے والی دہشت گردی کے آگے آج انڈیا کے مسلمان بے بس ہیں۔۔ اس دہشت گردی کے خلاف کوئی قانونی کاروائی بھی عمل میں نہیں آرہی ہے۔۔جس کی سبب یہ منفی عمل دن با دن بڑھتا جارہاہے۔ آج مسلمان ہے کل عیسائی ہوگا اور پھر ایک دن ہندو ذات کے دوسرے لوگ اس جگہ موجود ہوگے۔۔ پاکستان میں ہونے والے مساجد پر بم دھاکے اور عیسائی برادری کے چرچ میں ہونے والے بم دھاکوں کے پیچھے انہیں انتہا پسند تنظیم کا ہاتھ لگاتا ہے۔۔ عبادت گاہوں کو شہید کرنے کی تاریخ کے معاملات پر اگر غور کرو تو وہ کچھ صاف ظاہر کرتی ہے۔۔ اور ایک بھی سوال بھی پیدا ہوتا ہے۔۔ کہ ہمیشہ پاکستان اور دوسرے۔ملکوں میں بم دھاکے مساجد اور عیسائی برادری میں ہی کیوں پیش آئے۔ کیا اس کے پیچھے کسی اس طرح کی انتہا پسند تنظیم کا ہاتھ ہے۔۔
بعض اوقات کے ایسے لگاتا ہے جس کوئی ان خاص مذہبوں سے شدید نفرت کرتا ہوا۔۔ اور ان کا دشمن کیسی ایسےہی انتہا پسند تنظیم سے تعلق کرتا ہوا۔۔ اور آج انڈیا میں موجود انتہا پسند ہندو تنظیم ایک شیطانی چہرے میں بہت سے منفی عمل کو ظاہر کرتی ہے۔۔ اور اس کا یہ منفی عمل صرف انڈیا تک محدود نہیں ہیں یہ آہستہ آہستہ اپنا شکار دوسرے جگہ بھی منفی کاروائی سے کر رہا ہے۔۔ جس کے اس تنظیم کے طے کرلیا ہو کہ اپنے مذہب کو دہشت کے نام پر لوگوں سے قبول کروانا ہو۔۔ آج بربای مسجد کی جگہ مندر تعیمر ہوا ہے کل چرچ اور دوسرے مذہب کی عبادت گاہوں کے ساتھ بھی یہ عمل آسانی سے پیش آئے گا۔۔ عالمی ادارے کو اس صورتحال پر کوئی مثبت عمل کے ساتھ کاروائی کرنے کی اہم ضرورت ہے ورنہ ان کی دہشت گردی بہت سے معصوم لوگوں کی زندگیکھا جائے گی۔ ان کے شیطانی عمل کو درست وقت کاروائی کے ساتھ ہی روکا جاسکتا ہے۔۔ اللہ پاک انڈیا کے مسلمانوں کی غیبی مدد عطا فرمائے۔ آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں