سیاسی رسم 469

مقبوضہ کشمیر آرٹیکل 370 اور 35 اے

مقبوضہ کشمیر جو ایک طویل عرصہ سے اپنی آزادی کے لئے جدوجہدد کر رہا ہے، کشمیری شہریوں پر ظلم و ستم گزشتہ 72 سال سے جاری ہے۔کشمیری اپنی آزادی کی راہ تکتے ان 72 سالوں سے اپنی نوجوان نسلوں کی قربانی پیش کر رہیں ہے۔ کشمیری نوجوان نسل اپنے خون سے لکھی اپنی داستان دنیا کو ایک لمبے عرصے سے سنارہی ہے۔ پاکستان اور بھارت کی آزادی کے وقت جموں و کشمیر میں اس وقت کی موجود صورت حال کو دیکھ کر 26 اکتوبر 1947ءکو مہاراجا ہری سنگھ اور بھارت کی حکومت کے درمیان معاہدہ ہوا تھا کہ کشمیر کو آئینی طور پر خصوصی حیثیت دی جائے جس کی اہم وجہ کشمیر میں زیادہ اکثریت مسلمانوں کی تھی اس آئین کو مدنظر رکھتے ہو 17 اکتوبر 1947ءکو آٹیکل 370 نافذ کردیا گیا حالانکہ اس وقت بھارت کا وفاقی آئین ابھی تیاری کے مراحل میں تھا۔ بھارت کے آئین میں کشمیر کے حوالے سے دوبنیادی آرٹیکل شامل تھے۔ وہ یہ کے جموں وکشمیر بھارت کی ایک ریاست ہے اور دوسرے آرٹیکل 370 تھا جس کی حیثیت عارضی قراردی گئی تھی لیکن وہ مقبوضہ ریاست کو خصوصی حیثیت دیتا تھا بعدازاں 14 مئی 1954ءکو ایک صدارتی آرڈیننسں نافذ کیا گیا جس کو دی کانسٹی ٹیوشن کیشن ٹو جموں و کشمیر 35 اے کا نام دیا گیا اور بھارتی آئین میں شامل کر دیا گیا۔ بھارت نے 17 نومبر 1956ءکو جموں وکشمیر کا آئین نافذ کیا تھا۔ آرٹیکل 35 اے کے تحت جموں وکشمیر کو بھارت کی دیگر ریاستوں کے شہر یوں کو کشمیر میں شہریت سے محروم کر دیا گیا۔ آرٹیکل 370 کے مطابق جموں وکشمیر کو بھارت کا آئینی حصہ قراردیاگیا ، جو جموں وکشمیر کو خصوصی حیثیت دیتا ہے جس کے تحت کشمیری اپنے لیے قوانین خود بنائیں گے۔ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت عارضی ہے۔ آرٹیکل 370 میں اس کو منسوخی کا بھی طریقہ کار وضع کیاگیا اور کہا گیا تھا کہ صدر چاہے ایک حکم جاری کرکے اس کو ختم کر سکتا ہے۔ مگر اس کے لیے انہیں جموں وکشمیر کی آئین ساز اسمبلی سے اجازت لینا ہوگی۔ ان آرٹیکل کو بنانے کا مقصد جموں وکشمیر میں امن اور اتحاد قائم کرنا تھا، جو کہ نہ ہو سکا۔ ایسا نہیں ہے، کشمیریوں نے اپنی آزادی کی آواز پاکستان اور بھارت کی آزاد ہونے کے بعد اٹھائی تھی۔ کشمیریوں نے جدوجہد آزادی کا آغاز 1931ءسے ہی شروع کر دیا تھا جس کی حمایت علامہ اقبالؒ نے بھی کی تھی۔ پر کیونکہ پاکستان خود ایک اسلامی ریاست کے طور قائم ہوا تھا۔ اس کو ہضم کرنا بھارتی انتہاپسند جماعت کے لیے اس وقت بھی مشکل ہو رہا تھا۔ تو وہ کیسے کسی دوسری ریاست کو اسلام کے نام پر قائم ہونے دیتے۔
موجود ہ کشمیر کی صورت حال کو دیکھ کر لگتا ہے۔ اس وقت ان آرٹیکل کو بنانا صرف ایک خاص مقصد کے تحت تھا، مہاراجا ہری سنگھ نے ان آرٹیکل کو بناکر کشمیری مسلمانوں کو احساس دلایا کے وہ ایک خود مختار ریاست سے وابستہ ہیں، ان آئین کے باوجود کشمیری کبھی آزادی کی زندگی جی نا سکے۔ اور اپنی آزادی کے لیے آواز پوری دنیا کو لگاتے رہے، پاکستان جو خود ایک اسلامی ملک کے لیے بنایا گیا، اس لیے پاکستانی بہ خوبی یہ سمجھ سکتا ہے کہ انڈیا میں مسلمانوں کے ساتھ مذہب کے نام پر مارنے والے کھیل کو، اس لیے پاکستان نے کشمیریوں کے حق کے لیے ہمیشہ ان کی آواز بنا اور کشمیریوں کی مدد کی۔ کشمیر کے مسئلہ پر بھارت سے جنگ بھی ہوئی جس میں کامیابی پاکستان کو نصیب ہوئی، آج مقبوضہ کشمیر کی حالات نہ قابل برادشت ہے۔ مقبوضہ کشمیر 72 سال سے انڈین آرمی کے ظلم دستم کا شکار بنا ہوا ہے۔ بھارت نے 5 اگست 2019ءکو مقبوضہ جموں کشمیر میں کرفیو نافذ کیا اور لاک ڈاﺅن کے دوارن موبائل اور انٹرنیٹ سروع معطل کردی تھی، آج دس ماہ گزر جانے کے باجود مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاﺅن کرفیو جاری ہے۔ جس میں انٹرنیٹ سروس، موبائل سروس اب تک معطل ہے، آج پوری دنیا کو یہ معلوم ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اسلحے کے زور پر ظلم وجبر کا سلسلہ عروج پر ہے۔ اب حالات ایسے خوف ناک صورت حال میں ہیں کہ جب کشمیریوں سے بھارتی فوج کا لاک ڈاﺅن ختم ہوگا تو دنیا وہ دیکھے گی جو آج تک کسی نے ظلم و بربریت میں نہیں دیکھا ہوگا۔ بھارت کے ظلم کی داستان لکھتے ہوئے آنسو جاری ہو جاتے ہیں، ہر الفاظ ان کی تکلیف کو پیش کرنے میں چھوٹا لگتا ہے۔ انڈین آرمی مقبوضہ کشمیر میں ظلم وبربریت کے پہاڑ توڑے ہوئے ہے۔ وہ نہتے اور مجبور کشمیریوں پر غیر انسانی اور غیر اخلاقی دونوں طرح کے حربے آزما رہا ہے۔ انڈین حکومتی اداروں نے کشمیر میں کرفیونافذ کر کے نہتے مجبور ومظلوم کشمیر یوں پہ ظلم وستم کی انتہا کر دی ہے۔ کشمیر یوں کے گھروں میں بلا اجازت داخل ہوکر جیسے چاہتے ہیں اٹھالیتی ہے۔ جس میں زیادہ تر نو جوان بچے شامل ہیں۔ جن کو لے جانے کے بعد ان پر تشدہ کر کے ان لاشیں چھوڑتی ہے۔ اس طرح مسلم عورتوں کو ان کے محرم رشتوں کے سامنے ریپ کیا جاتا ہے۔ ہر مہینہ تقریبا دس ہزار سے زائد کشمیری عورتیں ان ریپ کیسز میں شامل ہیں اور بعض اوقات تو مسلم عورتوں کو گھر وں سے اٹھانے کے بعد ان کے ساتھ گینگ ریپ کر کے مار دیا جاتا ہے۔ اس گینگ ریپ میں زیادہ تر کشمیری نوجوان لڑکیاں ہیں۔ کشمیر یوں کے گھروں کوآگ لگا کر گھر سے سامان لے جانا یہ سب چیزیں انڈین آرمی کے لیے معمول کا حصہ بن گئی ہیں۔ مودی حکومت کالا چہرہ دنیا کو نظر نہ آئے جب ہی بین الاقوامی میڈیا کو کشمیر سے دور رکھا جا رہا ہے۔ اگر اجازت دی بھی جارہی ہے تو وہ چند مخصوص علاقوں تک ہی میڈیا رسائی ہے۔ ان علاقوں تک جانے ہی نہیں دیا جارہا ہے جہاں یہ سفاک گورنمنٹ اپنی فوج کے ساتھ آگ وخون کا کھیل کھیل رہی ہے اور جب سے پا کستا ن کے ذریعہ سے کشمیر یوں کی ظلم کی داستان دنیا نے سنی ہے جب سے عالمی میڈیا کوریج پر مکمل طور پر پابندی لگادی گئی ہے۔ سوشل میڈیا کی رسائی بھی بن ہے۔ کشمیریوں کی حالت ایسی تکلیف دہ ہے کہ نہ تو ان کے پاس کھانے کو کچھ ہے اور نہ ہی پینے کو کچھ ہے۔ اگر کوئی ان کا اپنا ان کے گھر میں مرجائے تو اس کو دفنانے کی بھی اجازات نہیں ہے، وہ علاقے جس جگہ مکمل کر فیو لگا ہو ہے اس جگہ کشمیری اپنے مرنے والوں کو گھروں میں ہی دفنانے پر مجبور ہیں اور ان مرنے والوں میں کسی کشمیری کی وہ بہن بھی شامل ہے جس کو انڈین آرمی نے ریپ کے بعد مار دیا تھا۔ کشمیری لڑکیوں کے ساتھ گینگ ریپ کیا جاتا ہے تاکہ اس کے محرم رشتے خود ہی خودداری کی موت مر جائیں۔ وہ بچے بھی شامل ہیں جن کی عمر صرف کچھ ماہ کی ہوتی تھی وہ باپ اور ماں بھی شامل ہیں جن کو اگر وقت پر اسپتال لے جاتے تو شاید وہ موت کی آغوش میں نہیں جاتے۔ مودی حکومت کشمیریوں کے ساتھ یہ سب اس لیے کر رہی ہے تاکہ کشمیری مجبور ہو جائیں اور ان کے آگے ہتھیار ڈال دیں اور یہ کامیاب ہو جائیں، کشمیری عوام کی نسلوں کو اپنا غلام بنانے کے لیے۔
پر یہ صرف مودی حکومت کا خواب ہی رہے گا۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے ساتھ ہی 35 اے ختم کرنے کی وجہ کشمیری عوام کے علاقوں میں قبضہ کر کے ان کی جائیداد اور نوکری اور سرمایہ کاری کر کے کشمیری عوام کو ہمیشہ تکلیف دینا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل ختم کرنے کی وجہ سے جوان، بزرگ اور خواتین سمیت ہر عمر کے افراد نے بھارتی احکامات ماننے سے انکار کیا اور احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکلے اور کرفیو کی دھجیاں اڑا دی تھی لیکن انڈین فوج نے اندھا دھند فائرنگ کا سلسلہ شروع کر دیا اور 17 اگست کو کم از کم 6 کشمیری شہید ہوئے اور 100 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
آج پوری دنیا مقبوضہ کشمیر کے موجودہ حالات کی طرف متوجہ ہے۔ کشمیریوں پر ہونے والے ظلم کے بارے آج پوری دنیا آگاہ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جب کشمیر سے کرفیو ختم ہو گا تو کیا ہو گا۔ کیا دنیا بھارت کو اس کی بے غیرتی کی مثال اس کو اپنے آپ دے گی۔ پوری دنیا میں لاک ڈاﺅن ہوا تو لوگ پریشان ہو گئے، ذرہ سوچیے کشمیریوں کا جن پر لگنے والا لاک ڈاﺅن جو ختم ہی نہیں ہو رہا ان کے حالات کتنے تکلیف دہ ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں