ایک واقعہ یا پھر ایک خبر جس نے مکافات عمل بمقابلہ سوشل انویسٹمنٹ کی سی صورتحال پیدا کردی ہے اور بیک وقت صحافت اور سیاست کے میدان میں ایک ہل چل یعنی ایک ہیجان برپا کردیا ہے۔ اس شور و غوغا میں اس آواز کو ہی دبانے یا پھر مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے جس کی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ جی ہاں میں ذکر پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا ہاﺅس کے مالک کی گرفتاری کا کررہا ہوں۔ ایک ایسے ادارے کے مالک کی گرفتاری قانون کے ہاتھوں عمل میں لائی گئی ہے جو حکومتوں کے بنانے اور اسے تڑوانے کا دعویدار ہے۔ کالم کو مزید آگے بڑھانے اور صفحات کو سیاہ کرنے سے پہلے میں یہ وضاحت کرتا چلوں کہ میری کسی سے کوئی ذاتی رنجش نہیں، وہی لکھنے کی کوشش کرتا ہوں جس میں حقائق ہو، خود کو اور اپنے قلم کی جنبش کو ہر طرح کی مصلحت سے پاک رکھنے کی کوشش کرتا ہوں اس لئے اگر کسی کی دل آزاری ہو تو معافی کا طلب گار ہوں اس لئے کہ معاملہ سیاست سے زیادہ صحافت کا ہے اس لئے مجھے اپنے صحافی بھائیوں کے جذبات احساسات اور ان کی مجبوریوں کا علم ہے مگر صحافی کی تحریر ہمیشہ سچائی کی متقاضی ہوتی ہے۔ وہ رشتوں ناطوں اور جذبات سے عاری ہو کر جنبش کا عادی ہوتا ہے۔ اب موصوف پراپرٹی کے سیدھے سادھے کریمنل کیس میں پکڑے گئے ہیں جن کے خلاف پکڑنے والوں کے پاس بقول ان کے ناقابل تردید دستاویزی شواہد موجود ہیں۔ معاملہ نے نیب کے بعد عدالت جانا ہے جہاں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا لیکن ان تمام مراحل سے پہلے ہی زیرحراست ملزم کے میڈیا ہاﺅس نے اپنی توپوں کا رُخ حکومت اور اس کے اداروں کی جانب کردیا ہے اس سے تو اس طرح سے لگ رہا ہے کہ ملزم کے پاس اپنے بے گناہی کا کوئی ثبوت نہیں اس لئے وہ اپنے ادارے کے ذریعے اس مقدمے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کررہا ہے اس لئے اس کریمنل کیس کو ”آزادی اظہار رائے کو خطرہ ہے“ سے جوڑا جارہا ہے۔ ملزم کی گرفتاری کسی اسکینڈل کے اشاعت کے نتیجے میں نہیں کی گئی ہے اسی طرح سے سیاستدانوں کا میڈیا ہاﺅس پر آئے اس مشکل گھڑی میں ساتھ دیتے ہوئے ان کی آواز میں اپنی آواز شامل کرنے کا واضح مطلب ان کی سوشل انویسٹمنٹ ہے وہ اس وقت اس میڈیا ہاﺅس کو اپنا کاندھا دے رہے ہیں تاکہ جب ان پر برا وقت آئے تو وہ بھی ان کا ساتھ دیں اس لئے کہ ”اس حمام میں سب ننگے ہیں“ حالانکہ سب کو معلوم ہے مذکورہ میڈیا ہاﺅس اور اس کا زیرحراست مالک حکومتی انتقام کا نشانہ نہیں بنے بلکہ وہ مکافات عمل کا شکار ہوئے ہیں ”جیسی کرنی ویسی بھرنی“ کے مصداق ہی ان کے ساتھ یہ سب ہو رہا ہے۔
ابھی زیادہ پرانی بات نہیں کہ کس طرح سے ایک نوزائیدہ ٹی وی چینل ”بول“ اور اس کے مالک شعیب شیخ کے ساتھ انہوں نے اور ان کے میڈیا ہاﺅس نے جو کچھ کیا وہ سب کو یاد ہے کس طرح سے اس کے مالک کو جھوٹے مقدمے میں گرفتار کروا کر اس کے خلاف ڈھول پیٹا گیا۔ کیا اس وقت ٹی وی چینل کا بند کیا جانا اور صحافیوں کا بے روزگار کیا جانا صحافت پر حملہ نہیں تھا؟ اگر اس وقت صحافت خطرے میں نہیں تھی تو اب کس طرح سے صحافت خطرے میں پڑ گئی؟ اس لئے میں اس گرفتاری کو مکافات عمل کا نام دے رہا ہوں اور مکافات عمل کا مقصد ایک طرح سے قدرت کا پیغام ہوتا ہے کہ اب بھی وقت ہے، سدھر جاﺅ اور راہ راست پر آجاﺅ۔ لیکن اگر کوئی مکافات عمل کے بعد بھی کچھ نہیں سیکھتا اور اپنی روش کو نہیں بدلتا تو اس ہی طرح کے لوگوں کے لئے قرآن کریم میں کہا گیا ہے کہ ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے نہ وہ دیکھتے ہیں اور نہ ہی وہ ہنستے ہیں۔
میرے خیال میں جو قید میں ہے اسے تو شاید اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہو گا لیکن جو ان کے درباری صحافی اور اینکرز کے علاوہ سیاستدان ان کے ساتھ سوشل انویسٹمنٹ کرتے ہوئے قیدی کی حمایت میں بیان بازیاں کررہے ہیں وہ دراصل قیدی کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں اپنے موجودہ روش پر ڈٹ جانے کی ترغیب دے رہے ہیں یعنی ”لگے رہو منا بھائی ہم آپ کے ساتھ ہیں“ اس لئے کالم کی ابتداءہی میں، میں نے اس خبر یا واقعہ کو مکافات عمل بمقابلہ سوشل انویسٹمنٹ کا نام دیا تھا۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ اس سارے عمل میں کون غلبہ پاتا ہے۔ مکافات عمل۔۔۔؟ یا سوشل انویسٹمنٹ سچ یا جھوٹ؟ اور اس کا نتیجہ جلد ہی نکل آئے گا۔ اس لئے کہ ملک کا ایک بڑا وکیل بیرسٹر چوہدری اعتزاز احسن اس کیس کی پیروی کررہے ہیں اور ان کی ذہانت سے کسی کو کوئی انکار نہیں۔ عمران خان اور ان کی حکومت کو چاہئے کہ وہ اس معاملے میں بالکل بھی مداخلت نہ کریں اگر سرکاری مشینری کی جانب سے مداخلت ہو بھی رہی ہے تو اسے فوری طور پر رکوادیں اس لئے کہ میڈیا ہاﺅس کی جانب سے مسلسل یہ الزام لگ رہا ہے کہ ان کے چینل کو آخری نمبر پر کردیا گیا ہے اور عمران خان اقتدار میں آنے سے پہلے ہی میڈیا ہاﺅس کے مالک کو گرفتار کروانے کی دھمکی دے چکے تھے وغیرہ وغیرہ حالانکہ وہ ایک طرح سے انتخابی نعرہ تھا اور انتخابات سے پہلے سیاستدان نہ جانے کیا کچھ اپنے مخالفین کے لئے کہتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر نعرے کو عملی جامہ پہنایا جائے لیکن اس کے باوجود عمران خان کو بہ حیثیت وزیر اعظم پاکستان خود کو اس طرح کے تنازعوں سے دور رکھنا چاہئے جو ان کے مشن اور ان کے منصوبے کی راہ میں دیوار بن سکتے ہیں انہیں وزارت اطلاعات کو اس سارے معاملے میں غیر جانبدار رہنے کی ہدایت کرنی چاہئے اگر کسی کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے تو اس کا ازالہ کرنے کی ضرورت ہے یہ ہی ایک نئے اور بدلتے ہوئے پاکستان کا تقاضا ہے۔
373