جیسی رعایا ویسے حکمران 278

واقعہ جنگ بدر

غزوہ بدر 17 رمضان المبارک 02 ہجری اسلامی تاریخ کا وہ عظیم اور تاریخ ساز دن ہے جب اسلام و کفر اورحق و باطل کے درمیان پہلی معرکہ آرائی ہوئی۔ حق وباطل کے درمیان فرق کھل کر سامنے آیا، اور اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت کے ذریعے مسلمانوں کو فتح مبین سے نوازا۔ غزوہ بدراےک عظےم انقلاب کی بنےاد ثابت ہو، اور اسلام پوری آب وتاب سے ظاہر ہونا شروع ہوا ۔ اس دن مسلمانوں نے ثابت کردیا کہ اگر ایمانی کیفیت اور اللہ پر پختہ یقین ہو تو جنگیں اسلحہ، ٹیکنالوجی اور افرادی قوت سے نہیں ، بلکہ ایمان اور کامل یقین سے جیتی جاسکتی ہیں۔ غزوہ بدر کا پس منظر جاننے کے لےے ضروری ہے کہ ہم تارےخ کے حوالے سے طلوعِ اسلام کی تحرےک کا اجمالی جائزہ لےں۔ بدر مدےنہ منورہ سے اسّی مےل کی دوری پر وادی ےلےل مےں اےک بےضوی شکل کے مےدان کا نام ہے جو کہ پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے، اور دور رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم مےں تجارتی شاہراہ اسی مےدان سے ہوکر گزرتی تھی اورمکہ و مدےنہ جانے کے راستے بھی اسی مقام پر ملتے تھے ۔ جب خاتم النیین محمد صلی اللہ علےہ و سلم نے ڈنکے کی چوٹ پر دےن اسلام کی دعوت کا اعلان کےاتو مکہ مےں دو گروہ پےدا ہوئے۔پہلی جماعت ان لوگوں کی تھی جنہون نے دےن اسلام قبول کےا، ےہ تعداد مےں تھوڑے تھے۔ دوسرا گروپ ان لوگوں کا تھا جنہوں نے دےن اسلام کو ماننے سے انکار کےا، ےہ تعداد مےں زےادہ تھے۔ ےہ دےن اسلام کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے۔نتےجہ ےہ ہوا کہ منکرےن اسلام نے مسلمانوں پر جبر و تشدد اور ظلم وستم کے پہاڑ توڑنا شروع کردیے۔ اےک طرف صبر و تحمل تھا اور دوسری طرف زور و جبر تھا۔ےہ کشمکش تےرہ سال تک جاری رہی،آخر کار مسلمانوں پر سرزمےن مکہ تنگ سے تنگ تر ہوتی چلی گئی، تب وہ آہستہ آہستہ اور خاموشی سے مدےنہ کی جانب ہجرت پر مجبور ہوئے، ےہاں تک کہ آخر مےں رسول اللہ صلی اللہ علےہ و سلم نے بھی حضرت ابو بکر صدےق کے ہمراہ مکہ کو خےر باد کہا اور مدےنے کو آباد کےا۔ مکہ کے قرےشےوں نے اب مسلمان تارکےں وطن کو مدےنے مےں بھی چےن اور سکھ سے رہنے نہےں دےا۔
ہوا ےوں کہ ہجرت کے دوسرے سال قرےش کا اےک بہت بڑا تجارتی قافلہ شام سے مکہ کی طرف لوٹ رہا تھا ۔اس تجارتی قافلے کے ساتھ پچاس ہزار اشرفےوں کا مال و اسباب تھا۔ مکہ کے ہر فرد نے اور ہر عورت نے اس تجارت مےں اپنا سرماےہ لگاےا تھا۔ ےہ تجارتی قافلہ اس راستے سے لوٹ رہا تھاجو مدےنہ کے پاس سے ہوکر گزرتا تھا۔ چونکہ مال و اسباب زےادہ تھا ، محافظ کم تھے اور اس وقت جو حالات رونما تھے ، اس کے تحت قافلے کے لوگوں کو ڈر تھا کہ مسلمان کہےں چھاپہ مار کر تجارتی مال واسباب لوٹ نہ لےں۔ ابوسفےان اس تجارتی قافلے کاسردار اور رہنما تھا جو مدےنہ کے پاس سے گزر رہا تھا ، اس نے حکمت عملی سے کام لےتے ہوئے قافلے کو بدر کے درّے مےںسے گزرنے سے پہلے اےک مقام پر ٹھہرادےا اور خود تن تنہا بدر کے شہر مےں آےا، چونکہ وہ ےہاں سے اکثر گزرا کرتا اس لےے وہ ےہاں کے چپے چپے سے واقف تھا اور وہاں کے لوگوں کو بھی جانتا تھا۔ بدر کے شہر مےں آکر وہ سب سے پہلے اس مقام پر پہنچا، جہاں اےک کنواں تھا۔ شہر کا کوئی نہ کوئی فرد ہر وقت وہاں موجود رہتا۔ وہاں موجود افراد سے معلوم کےا کہ شہر کا سردار اس وقت کہاں ملے گا،وہ سردار سے جاکر ملا،اس نے خبردی کہ ابھی کچھ دےر پہلے دو اونٹ سوار ےہاں سے گزرے ، انہوں نے کنوےں پر ٹھہرکر پانی پےا،اپنے اونٹوں کو بھی پلاےا اور آگے بڑھ گئے۔ او سفےان اونٹوں کے قدموں کے نشان ڈھونڈتا ہوا آگے بڑھا۔ کچھ دور چلنے کے بعد اسے اونٹوں کی تازہ لےد نظر آئی۔ اس نے لےد کا اےک گولا اٹھاےا ،اسے توڑا اس مےں گھاس کی بجائے گھجو ر کی گٹھلےاں نظر آئےں۔ وہ سمجھ گےا کہ ےہ اونٹ بدر کے نہےں بلکہ مدےنہ کے ہےں، کےوں کہ مدےنے والے اپنے اونٹوں کو گھاس کی بجائے کھجور کی گٹھلےاں کھلاتے ہےں۔اس نشاندہی پر وہ سمجھا کہ مدےنہ کے مسلم ان کے تعاقب مےں ہےں اور انہےں ڈھونڈ رہے ہےں۔ اس نے خطرے کی گھنٹی محسوس کی اور تےزی سے بھاگتا ہوا اپنے قافلے مےں پہنچا۔ اےک برق رفتار سانڈنی بردار کو اُجرت دی،اسے مکہ کی طرف دوڑاےا تاکہ اہل قرےش مدد کو پہنچےں۔ ابو سفیان نے سانڈنی سوار کو مکہ کی طرف روانہ کرنے کے بعد قافلے کو بحر احمر کے کنارے کنارے اےک منزل کی بجائے دو منزل طے کرتا ہوا مکہ کی سمت کوچ کےا،اور اپنے تئیں قافلے کو مسلمانوں کی دسترس سے صاف نکال لاےا۔ ےہاں سانڈنی سوار نے مکہ پہنچتے ہی عرب کے قدےم دستور کے مطابق سانڈنی کے کان کاٹے، ناک چےری، کجاوا الٹا، اپنا کرتا اگے سے پھاڑا اور بےن کرنے لگا ”اے قرےش کے لوگو! اے مکہ کے باسےو! اپنے تجارتی قافلے کی خبر لو، تمہارا تجارتی قافلہ مال و اسباب جو ابو سفےان کے قےادت مےں آرہا ہے مقام بدر پر مسلمانوں کی زد مےں ہے۔ وہ کسی بھی وقت اسے لوٹ سکتے ہےں۔مجھے ڈر ہے کہ اس مال و اسباب مےں سے تمہارے ہاتھ کچھ بھی نہ آئے۔“
پورے مکہ مےں ےہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھےلی، لہٰذا طے ہوا کہ جنگ کا طبل بجاےا جائے اور مسلمانوں کو اےسا سبق سکھاےا جائے جسے وہ زندگی بھر ےاد رکھےں۔ لہٰذا اےک ہزاربہادروں کا لشکر تےار کےا گےا ،جس کا سپہ سالار عتبہ بن ربےع تھا ۔ اس فوج مےں چھ سو افراد زرہ پوش تھے، سو واروں کا اےک رسالہ تھا ےہ اسلحہ بند شتر سوار تھے۔ہتھےاروں سے لےس گھڑ سواروں کی تعداد دوسو تھی ۔اور ہتھےاروں سے لےس پےادہ فوج کی تعداد سو تھی۔ کھانے پےنے کی وافر چےزےں ساتھ لی گئےں ۔ امرائے قرےش مےں سے عتبہ بن ربےع ، حارث بن عامر ،نصر بن الحارث،ابو جہل،امےہ بن خلف باری باری روزانہ دس دس اونٹ زبح کرتے اور اپنے ساتھےوں کی ضےافت کرتے۔دل بہلانے کا ساز و سامان ہمراہ تھا ۔ رات مےں عےش و طرب کی محفلےں سجتےں ۔ غرض اہل قرےش کا ےہ لشکر بڑے طمطراق سے مدےنہ کی طرف روانہ ہونے کے لےے تےار ہوا تاکہ تجارتی قافلے کو مسلمانوں سے بچا کر لاےا جا سکے اورمسلمانوں سے دو دو ہاتھ بھی ہو جائےں اور انہےں سبق بھی سکھاےا جائے۔فوج کی روانگی کے وقت دشمنان اسلام نے جن مےں ابو جہل بھی تھا ، کعبے کی دےوار پر ہاتھ رکھ کر دعا مانگی کہ ”اے ربّ کعبہ….! دونوں مےں سے جو دےن تجھے زےادہ پسند ہو، دونوں لشکروں مےں سے جو لشکر عالیٰ ہو ،دونوں جماعتوں مےں سے جو جماعت زےادہ تقوے والی ہو اور دونوں گروہوں مےںسے جو گروہ ذےادہ معزز ہو ،فتح کا سہرا اس کے سر باندھنا۔“ اہل قرےش ےہ دعا مانگتے وقت ےہ جان رہے تھے کہ وہ حق پر ہےں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام(نعوذبا للہ) حق پر نہےں ہےں۔ جبکہ وہ خود کفر اور شرک ،فسق و فجور مےں مبتلا تھے۔
دشمنان اسلام کا فوجی قافلہ مکہ سے بدر کی جانب روانہ ہوا۔ ابھی قرےش کا لشکر راستہ ہی مےں تھا کہ دوسرے قاصد نے آکر خبر دی کہ ابو سفےان اپنے قافلے کو خطرے سے باہر نکالنے مےں کامےاب ہوا اور وہ عنقرےب باحفاظت مکہ پہنچ رہا ہے۔اس خبر سے لشکر قرےش مےںاختلاف پےدا ہوا ۔اےک گروہ کہہ رہا تھا کہ اب لڑنے مرنے سے کوئی فائدہ نہےں مکہ واپس لوٹ چلو۔ مگر دوسرا گروہ واپس لوٹنا نہےں چاہتا تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ ہر حال مےں مسلمانوں کا مقابلہ کےا جائے،ان مےں ابو جہل پےش پےش تھا ۔اس اختلاف کی وجہ سے بنی زہرہ ،بنی احنس، بنی عدی بن کعب ، اور بنی ہاشم کے لوگ واپس لوٹ گئے۔ اور ابو جہل، عتبہ ، امےہ بن خلف ،اور ان کے ہم خےال افراد مدےنے کے مہاجرےن و انصار کا زور توڑنے کے لےے بدر کی جانب بڑھے، اب ان کی تعداد نو سو پچاس تھی۔
نبی برحق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حالات سے ہر وقت با خبر رہتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے علم مےں ےہ بات آچکی تھی کہ ابو سفےان کا قافلہ مدےنے کے پاس سے گزر رہا ہے ۔اور اس قافلے کی مدد کے لےے اہل قرےش کی مسلح افواج مدےنے کی طرف روانہ ہوچکی ہے۔ ےہ مدافعت کاوقت تھا،(باقی صفحہ بقیہ نمبر60)

اپنادفاع کرنا ضروری تھا۔ مدےنے کے لوگوں کی جان ،مال واسباب، عزت آبرو، کی حفاظت کرنی تھی۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مہاجرےن اور انصار کو اےک جگہ جمع کےا اور ان کے سامنے صورتحال رکھی کہ اےک طرف اہل قرےش کا تجارتی قافلہ ہے جس کے پاس کروڑہا روپے کا مال و اسباب ہے، جو مدےنے کی راستے مکہ کی طرف جارہا ہے اور دوسری طرف دشمنان اسلام کی فوج جنوبی راستے سے مدےنے کی طرف پےش قدمی کر رہی ہے ۔ آپ صلی اللہ علےہ وسلم نے انصار اور مہاجرےن سے مشورةً پوچھا کہ اس صورتحال سے ہمےں کس طرح نپٹنا چاہےے….؟
اےک گروہ کی رائے تھی کہ قافلے کے ساتھ کم لوگ ہےں ، مال واسباب زر کثےر کا ہے ،اس پر ہلّہ بول دےا جائے اور ان کا تجارتی مال واسباب لوٹا جائے۔ دوسرے گروہ کا خےا ل تھا کہ دشمنانِ اسلام کی فوج سے ٹکر لی جائے، ان کا زعم ہمےشہ ہمےشہ کے لےے خاک مےں ملادےاجائے اور اس فتنے کو جڑ سے اکھاڑ کر پھےنک دےا جائے ، آپ صلی اللہ علےہ و سلم کی بصےرت کا بھی ےہی فےصلہ تھاکہ اہل مکہ کے کافروں اور مشرکوں سے جنگ کرکے ان کی طاقت توڑدی جائے اور سب سے بڑی اور اہم بات ےہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کی مشےت بھی ےہی تھی کہ حق کوحق کے ساتھ ثابت کےا جائے اور اور کفر و شرک کو جڑ سے کاٹ کر پھےنک دےا جائے تاکہ حق کی حقانےت ظاہر ہو اور باطل باطل کے ساتھ ثابت ہو جائے۔ لہٰذا اللہ کے رسول صلی اللہ علےہ و سلم کے حتمی فےصلے اور دوسرے گروہ کے خےال کے مطابق اپنا دفاع کرنے کے لےے لگ بھگ تےن سو مجاہدےن کی فوج ترتےب دی گئی ۔ان مےں سے صرف دو کے پاس گھوڑے تھے، کل ستر اونٹ تھے جن پر تےن سو مجاہدےن باری باری سوار ہوتے۔رسولِ اکرم صلی اللہ علےہ و سلم نے بذات خود اس فوج کی قےادت فرمائی۔ آپ صلی اللہ علےہ و سلم نے اپنے جانثاروں کے ہمراہ رمضان کی سولہ تارےخ کو مدےنہ منورہ سے بدر کی جانب کوچ فرماےا۔
دشمن آپ صلی اللہ علےہ و سلم سے پہلے وہاں پہنچ چکا تھا ۔ اس نے جگہ جگہ پڑا¶ ڈالا جو جنگی نقطہ نظر سے زےادہ آہم تھی ، جہاں پانی کے کنوئےں تھے وہاں براجمان ہوگئے ۔ اس لےے آپ صلی اللہ علےہ و سلم نے بہ حالت مجبوری کنو¶ں کے شمال مشرقی سمت مےں اےک اونچے ٹےلے پر قےام فرماےا۔ جانبازوں نے وہاں اےک جھونپڑی ےاسائبان بنا دےا تاکہ آپ صلی اللہ علےہ و سلم بحےثےت سپہ سالار اعظم وہاں سے مےدان جنگ کا مشاہدہ کرسکےں۔ حالات کا جائزہ لے سکےں اور وقتاً فوقتاً ہداےات جاری کر سکےں۔ سائبان کے پےچھے دو برق رفتار سانڈنےاں باندھی گئےں تاکہ خدانخواستہ مےدان جنگ کا نقشہ پلٹ گےا تو اور اہل اسلام کو شکست کا منہ دےکھنا پڑا تو اےسے نازک موقع پر آپ صلی اللہ علےہ و سلم ان پر سوار ہوکر مدےنہ منورہ مراجعت کرسکےں۔ سامنے نشےب مےں کفاران مکہ، مشرکےن قرےش اور دشمنانِ اسلام کا پر شکوہ لشکر پڑا¶ ڈالے ہوئے تھا۔ ان کی تعداد ،جاہ و حشمت ، ساز وسامان دےکھ کر اور ےہ دےکھ کر کہ پانی پر دشمنوں کا قبضہ ہے، ےہ جان کر کہ زمےن رےتلی ہے ، جس مےں پا¶ں دھنس دھنس جاتے ہےں ۔ ےہ سوچ کر کہ دشمن کے پاس سوارےاں ہےں اور اپنے پاس سوارےاں ہےں مگر ناکافی،ےہ سوچ کر کہ دشمن اسلحہ سے لےس ہے اور ےہاںتلوار ہے تو ڈھال نہےں اور ڈھال ہے تو تلوار نہےں۔ ان عوامل کی وجہ سے مجاہدےن کے حوصلے پست ہورہے تھے جو مدےنہ منورہ سے نکلتے وقت ےہ سوچ رہے تھے کہ انہےں زبر دستی موت کے منہ مےں دھکےلا جا رہا ہے ۔ اب انہےں اپنی شکست اور موت اپنی آنکھوں کے سامنے دےکھائی دے رہی تھی۔ لہٰذا ان کی ڈھارس بندھانا ضروری تھا تاکہدشمن کا مقابلہ کرتے وقت وہ ثابت قدم رہےں۔نڈر اور بے خوف ہوکر دشمن کا مقابلہ کرےں۔اللہ تعالیٰ نے ان کی ذہنی اور نفسےاتی کےفےت اس طرح تبدےل کی اور ان کی اس طرح اعانت فرمائی کہ اول رات مےں بارش ہوئی ۔ اس سے فائدہ ےہ ہوا کہ تمام مجاہدےن نہائے دھوئے ، جس سے وہ چست، چاق وچوبند ہوئے۔ تھکن اور خوف کی وجہ سے ان پر کسل مندی طاری تھی وہ دھل گئی۔ بارش سے دوسرا فائدہ ےہ ہوا کہ پانی کی قلت دور ہوئی۔مجاہدےن نے چھوٹے چھوٹے حوض بنا کر بارش کا پانی جمع کےا تاکہ وقت ضرورت کام آئے۔ بارش سے تےسرا فائدہ ےہ ہوا کہ ان کے پےروں کے نےچے کی رےت جم گئی ، جس سے رےت مےں پےر دھنسنے کا خوف ان کے دلوں سے جاتا رہا۔ بارش سے چوتھا فائدہ ےہ ہوا کہ دشمن نشےبی علاقے مےں تھا ، اس لےے وہاں کےچڑ ہوگئی، جس سے ان کے سواروں اور سپاہےوں کے پا¶ں زمےں پر جم نہےں پارہے تھے۔ بارش سے پانچواں فائدہ ےہ ہوا کہ مجاہدےن رات مےں بے خوف ہوکر سوگئے ،اور صبح جب نےند سے بےدار ہوئے تب ان کے قلوب پر سکون طاری تھا۔ بارش نے انہےں قلب کااطمنان بخشا۔اس کےفےت کی وجہ سے ان کے دلوں مےںدشمنوں کاخوف جاتا رہا۔اس طرح ےہ بارش مسلمانوں اور مومنوں کے لےے باعث رحمت اور کافروں کے لےے باعث زحمت ثابت ہوئی۔ غزوہ بدر مےں اہل اےمان کی فتح کا اےک اہم ترےن سبب ےہ بارش تھی جس نے ان کے دلوں کے وسوسوں کو دھوڈالا، اس سے ان کی ہمتےں بندھےں اور دشمن کے مقابلے مےں ثابت قدم رہے۔
اگر بدر مےں بارش نہ ہوتی تو کےا ہوتا…. ؟ تمام کرہ ارض کی ہداےت اور سعادت کا نقشہ الٹ جاتا….! جس کا اشارہ خاتم النبین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علےہ وسلم نے کےا تھا کہ اللہ….!اگر خدام حق کی ےہ چھوٹی سی جماعت ہلاک ہوگئی تو اس کراہ ارض پر تےرا سچا اطاعت گزار کوئی نہےں رہے گا۔ دراصل بدر مےں جس رات بارش ہوئی اس سے پہلے سائباں مےں اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے حضور سجدہ رےز ہوکر ، دےن اسلام جو دےن حق ہے کی بقاءکے لےے عجز و انکساری کے ساتھ گڑ گڑا کر ، رو رو کر دعا مانگ رہے تھے ، بہ وقت دعا محوےت اور بے خودی کا ےہ عالم تھا کہ کاندھوں پر سے چادر مبارک گرگر پڑتی اور آپ کو خبر تک نہ ہوتی۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اس دلی بے قراری پر ےارِغار ِ رسول ابو بکر صدےق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دربار رسالت مےں عرض کی ےا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم…. ! اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ وفا فرمائے گا، آپ خاطر جمع رکھےں ۔ اپنے بے قرار دل کو قرار دےں ….! آپ صلی اللہ علےہ و سلم دعا مانگ رہے تھے ” اے اللہ ….! ےہ قرےش ، ےہ با طلانِ حق کےل کانٹوں سے لےس ہوکر غرور و نخوت کے ساتھ ےہاں آئے ہےں تاکہ تےرے رسول صلی اللہ علےہ و سلم کو جھوٹا ثابت کرےں،اے اللہ ….!تےری نام لےوا مٹھی بھر جماعت اگر اگر آج ہلاک ہوگئی تو روئے زمےن پر تےرا اطاعت گزار اور عبادت گزار کوئی نہ ہوگا….!
اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علےہ و سلم کی دعا کو اس طرح شرفِ قبولےت عطاءفرماےا کہ اس کے جواب مےں بارش ہوئی جس نے فتح کو شکست مےں اور شکست کو فتح مےں تبدےل کےا۔اس کے علاوہ اےک ہزار ملکوتی طاقتےں بھےجنے کی بشارت دے کر مہاجرےن اور انصار کی مٹھی بھر جماعت کی مدد کی۔ سورہ انفال کی آےت 65 مےں اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے،جس مفہوم ہے کہ ”مےدان جنگ مےں اگر بےس مجاہدےن ثابت قدم ہوں گے تو وہ دو سو کافروں پر غالب آسکتے ہےں۔“ ےعنی اےک مرد مجاہد تنہا بےس کافروں سے نبرد آزماہوسکتا ہے۔ غور کےجئے ، معلوم ہوگا کہ ثابت قدمی کا انحصار حوصلے پر ہے، حوصلے کا دارومدار طاقت پرہے اور قوت اےمانی وہ ملکوتی طاقت ہے جو جسم مےں بجلی بھر دےتی ہے، حوصلہ بڑھاتی ہے ۔جس مےدا ن جنگ مےں مرد مجاہد دشمن کے سامنے ڈٹ جاتاہے اس طرح اےک اےک مجاہد بےس بےس کافروں پر بھاری ہوتا ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علےہ و سلم باہر تشرےف لائے فوج سے مخاطب ہوئے کہ تم اس وقت ساری دنےا مےں اللہ تعالیٰ کی الوہےت اور اس کی وحدانےت کے ذمہ دار ہو ۔ آپ صلی اللہ علےہ و سلم کے اس خطاب سے ان کے دلوں مےں ولولہ انگےز جذبہ پےدا ہوا کہ ہم ہی وہ واحد جماعت ہےں جو اس وقت اللہ تعالیٰ کی خاطر لڑ رہے ہےں ۔ باقی سب اللہ تعالیٰ کے دشمن ہےں ۔اس جوش اور ولولہ کے باعث اےک اےک آدمی کو ہزار ہزار آدمی کی قوت حاصل ہوئی اور وہ جان کی بازی لگانے پرآمادہ ہو گئے۔ “
اس کی مثال غزوہ بدر کا اےک بے نظےر واقعہ ہے۔ اےک طرف طاقت اور قوت کا پہاڑ ابو جہل تھا، جس نے اپنے آپ کو زرّہ بکترمےںچھپا رکھا تھا۔ اس کی صرف دو آنکھےں نظر آتی تھےں۔ دوسری طرف عفرا کے دو کم عمر بےٹے معوذ اور معاذ تھے، جنہوں نے ابھی زندگی کی بہارےں نہےں دےکھی تھےں، جن کی مسےں ابھی بھےگی نہےں تھی۔ ابوجہل کے سامنے ان کی حےثےت بالکل اےسی تھی جےسے ہاتھی کے سامنے چےونٹی۔مگر ان دو کم عمر مجاہدےن نے ابو جہل کی دونوںآنکھوں پر تاک کر اےسا نشانہ مارا کہ خاک و خون مےں تڑپنے لگا۔ آخر کار عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کا سر تن سے جدا کےا اور رسول اللہ صلی اللہ علےہ و سلم کے قدموں مےں لاکر ڈالا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان بچوں کے اندر نےزہ اٹھانے کی طاقت کہاں سے آئی….؟ ابو جہل کو جان سے مارنے کا حوصلہ کہاں سے آےا؟ دراصل ےہ وہ ملکوتی توانائی تھی جو اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر بجلی کی طرح بھر دی اور اسلام کے سب سے قوی ، جری اور ظالم دشمن کو بے بس اور ناتواں ہاتھوں سے ہلاک کرواےا، اور حق کی جےت نے کفر اور شرک کو جڑ سے کاٹ کر پھےنک دےا۔ بلاشبہ غزوہ بدر تارےخ کی اےک سچائی ہے، جسے کوئی جھٹلا نہےں سکتا۔ اسلام کا حقےقی عروج اسی غزوہ سے شروع ہوا۔کےوں کہ حق و باطل کے اس معرکے مےں کافروں اور مشرکوں کو شکست دےنے کے بعد مسلمان محض جلاوطن اور خانماں برباد مہا جر نہےں رہے بلکہ ان کے پاس اےک آزاد رےاست تھی اور وہ اےک زندہ اور آزاد قوم کی مانند مدےنے مےں رہ رہے تھے۔ رمضان المبارک کی اہمےت کا اندازہ غزوہ بدر کے کے اس بے مثال تارےخی واقعے سے لگائےے کہ اللہ تعالیٰ نے اس ماہ مبارک مےں نوع انسانی کے لےے صرف دستورِحےات ہی نازل نہےں فرماےا بلکہ اسی ماہ مکرم مےں اس کے نفاذ کی راہ بھی ہموار کردی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں