Muhammad Nadeem Columnist and Chief Editor at Times Chicago and Toronto 676

وزیر اعظم عمران خان کو درپیش نئے چیلنج

پہلے کھلاڑی، پھر پاکستان کی نیشنل ٹیم کے کپتان اور اب وزیر اعظم پاکستان، یعنی کھلاڑی سے کپتان اور کپتان سے حکمران بن کر جو حلف برداری کی تقریب میں عمران خان خاصے فکر مند دکھائی دیئے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کسی بچے کو زبردستی شیروانی میں باندھ کر بھیج دیا گیا ہو اور وہ اسے اتار پھینکنے کے لئے پر تول رہا ہو۔ عمران خان پروٹوکول سے خاصے پریشان دکھائی دیئے۔ ایک سادہ طبعیت انسان جس نے ساری زندگی عام انسانوں کی طرح گزاری ہو۔ جو اپنی برطانیہ کی پرتعیش زندگی کو چھوڑ کر وطن آگیا ہو، جس نے کینسر اسپتال بنایا تو پاکستان میں بنایا، یونیورسٹی بنائی تو وہ بھی اپنے وطن کی سرزمین پر، کیسے خود کو وزارت عظمی کے پروٹوکول کا محتاج کرے گا۔ وزارت عظمیٰ کا قلم دان سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے گارڈ آف آنر میں بھی عمران خان خاصے بے چین اور پریشان دکھائی دیئے، کبھی اپنی انگوٹھی گھماتے اور کبھی دائیں بائیں دیکھتے، شیروانی کے کالر کو درست کرتے اور خدا خدا کرکے وہ مختصر سی تقریب ختم ہوئی اور انہوں نے جان چھڑائی۔ یہی صورتحال مہمانوں کے سامنے حلف لیتے وقت دیکھی گئی کہ وہ کئی جگہ اٹکے، چشمہ اپنی شیروانی کے نیچے سے نکالا اور شیروانی پر پشاوری چپل کے اندر موزے پہن کر حلف برداری میں چلے آئے۔ یہ ان کی سادگی ہی ہے۔ دوسری جانب ان کی اہلیہ خود کو مکمل ڈھانپ کر ضرور آئیں مگر نہایت وقار اور تمکنت کے ساتھ حلف کے بعد خواتین سے ملیں اور فوری گھر واپس چلی گئیں۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ وہ خوش نہیں بلکہ پریشان ہیں کہ ان کے شوہر پر بہت بھاری ذمہ داری عائد کی جا چکی ہے اور وہ دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ عمران خان کو اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے میں ان کا حامی و ناصر ہو۔ عمران خان نے اپنی کابینہ بھی تشکیل دیدی ہے جو لوگوں کی تنقید کی زد میں ہے مگر یہ وہ جانتے ہیں کہ کس طرح ان مسائل سے نکلنا ہے جو گزشتہ 70 سالوں میں پہاڑ کی طرح ان کے سامنے کھڑے ہیں۔ ہم اس قدر سنگدل ہیں کہ بڑی گہری نگاہوں سے عمران خان کی تمام حرکات و سکنات کا جائزہ لے رہے ہیں اور ذرا ذرا سی بات پر سوشل میڈیا پر تنقید بھی کررہے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ کم از کم کچھ وقت تو دیں اگر عمران خان کی کابینہ نے 100 دن کا پلان دیا ہے تو دیکھ تو لیں۔ ماضی میں تو جنہوں نے پانچ پانچ سال صدر پاکستان کی حیثیت سے ملک سنبھالا انہوں نے سندھ میں دودھ کی نہریں بہا دیں؟ ہم بلاول بھٹو کے خطاب کی بہت تعریفیں کررہے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ دوسرے پر تنقید کرنے کے بجائے بلاول بھٹو زرداری اپنے باپ سے یہ سوال کیوں نہیں کرتے کہ انہوں نے اپنے گزشتہ دور میں کیا کیا؟ اب دیکھتے ہیں کہ ان کی سندھ کابینہ اور ان کا لایا ہوا وزیر اعلیٰ کیسے سندھ کی تعمیر و ترقی کر پائے گا۔ یقیناً اس بار بھی تمام فنڈز جیبوں میں جائیں گے اور الزام وفاق پر ہوگا کہ ہمیں انتقام کا نشانہ بنایا گیا اور فنڈز نہیں دیئے گئے۔ مگر شاید پیپلزپارٹی کے لئے سندھ میں یہ آخری موقع ہو کہ وہ کچھ کر گزریں وگرنہ سندھ کا رہنے والا بھی آج باشعور ہے۔ لاڑکانہ، سکھر اور سندھ کے دیہی اور شہری علاقوں کا بھرپور جائزہ بھی لے رہا ہے اور سوال بھی کررہا ہے اب بلاول بھٹو زراری کو یہ سمجھنا ہو گا کہ اسمبلی فلور پر کھڑے ہو کر بہترین انگلش بولنے سے وہ اپنا پیغام انٹرنیشنل میڈیا کو تو ضرور پہنچا دیں گے مگر سندھ اور پاکستان کے عوام کے دلوں پر حکمرانی کرنا ان کا خواب ثابت ہوگا اگر انہوں نے عوام کے مسائل کے حل کے لئے سنجیدہ کوششیں نہ کیں اور سندھ کے وڈیروں کو لگام نہ ڈالی، یہی کچھ صورتحال پنجاب کی رہے گی کہ پنجاب میں کی گئی تعمیر و ترقی صرف پیسہ کمانے کے لئے کی گئی، کمیشن کھایا گیا اور دونوں ہاتھوں سے عوام کی دولت لوٹی گئی۔ گزشتہ دس سال نواز برادران اور ان کے بچوں نے پاکستان کے عوام کا خون چوسا، اب یہ کہنا کہ ہم دیکھیں گے کہ عمران کس طرح مسائل پر قابو پاتے ہیں۔ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ یہ ماضی کے لٹیرے اپنی ایڑی چوٹی کا زور اس بات پر لگائیں گے کہ کسی بھی طرح عمران خان ناکام ہو جائے تاکہ یہ کہنے کے قابل ہوں کہ عمران نا تجربہ کار حکمران ہے اور اس نے ملک میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کو روک دیا وگرنہ ہم تو پاکستان کو یورپی ممالک کے مدمقابل کھڑا کرنے والے تھے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے تعلقات میں ہمارے پڑوسی ممالک، یورپی ممالک اور امریکہ، کینیڈا کے ساتھ برابری کی بنیادوں پر ہونا چاہئیں۔ نہ کہ ہم کشکول لئے کھڑے رہیں۔ ہمیں خود دار قوم کی طرح زندہ رہنا ہوگا اور اس کے لئے عمران خان کا بھارت اور امریکہ سے تعلقات کا بیان واضح اور صاف ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان اور ان کی کابینہ کس طرح اندرونی دشمنوں اور بیرونی دشمنوں کے اس مضبوط بلاک کو توڑ کر پاکستان کو ایک خوددار اور خود کفیل ملک میں تبدیل کرتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں عمران خان کی حکومت میں آنے سے ایک جذبہ پیدا ہوا ہے۔ بیرون ممالک میں رہنے والے اپنے اساسوں سمیت پاکستان جانے کے لئے پرتول رہے ہیں کیونکہ انہیں اعتماد ہے کہ عمران خان انہیں مایوس نہیں کرے گا۔ اب ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ قائد اعظم انگلش میں تقریر کرتے تھے، ایک پاکستان سے کسی نے سوال کیا کہ تمہیں سمجھ آرہی ہے کہ قائد اعظم کیا کہہ رہے ہیں۔ اس نے کہا کہ سمجھ تو نہیں آرہی لیکن یہ یقین ہے کہ جو کچھ کہہ رہے ہیں سچ کہہ رہے ہیں۔ آج پھر یہی صورتحال پاکستانی عوام کی ہے کہ وہ عمران کی قیادت پر یقین رکھتا ہے۔
پاکستان ٹائمز کی جانب سے تمام مسلمانوں کو عیدالاضحیٰ مبارک، اللہ کرے اس عید قرباں کا پیغام ایثار اور قربانی ہمارے دلوں میں گھر کر جائے۔ آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں