وزیر اعظم عمران خان نے حالیہ دورہ کراچی کے دوران وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور حروں کے روحانی پیشوا پیرپگارا سے ملاقاتیں کیں۔ انہوں نے نوجوانوں سے بھی خطاب کیا اور میرٹ پر زور دیا۔ کراچی کی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے اراکین اسمبلی سے ملاقات نہیں کی کیونکہ ان کے خیال میں متحدہ نے اپوزیشن سے ملاقاتیں کرکے حکومت کے لئے مسائل پیدا کرنے کی کوشش کی۔ عمران خان نے کہا کہ وہ بلیک میلنگ کی سیاست کو ماننے کے لئے تیار نہیں۔ عمران خان کی اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ متحدہ کا ہمیشہ سے یہی وطیرہ رہا ہے کہ اپنے مطالبات منوانے کے لئے ناراضگی کا اظہار کرتی ہے مگر کراچی کی بہتری اور ترقی کے لئے آج تک کوئی حکمت عملی نہیں اپنائی گئی۔ کوئی نہیں جو کراچی کے مسائل کا سدباب کرے۔ وزیر اعظم جو کراچی سے الیکشن جیتے ہیں۔ کراچی کے مسائل کی اہمیت کو نہ جانے کیوں نظر انداز کررہے ہیں۔ گزشتہ 17 ماہ میں کراچی میں کوئی کام نہیں ہوا۔ نہ سندھ حکومت کو کراچی کے مسائل حل کرنے سے دلچسپی ہے۔ اور نہ ایم کیو ایم اپنے مسائل سے نکل پا رہی ہے۔ جو وہ عوام کے مسائل کی جانب توجہ دے۔
وزیر اعظم نے اپنے دورہ سندھ کے دوران میرٹ کا ذکر تو کیا مگر وہ یہ بھول گئے کہ سندھ کے شہری علاقوں سکھر، حیدرآباد اور کراچی کے نوجوان کوٹہ سسٹم کی تلوار تلے سسک رہے ہیں اور میرٹ کا جس بے دردی سے خون کیا گیا ہے وہ پورے پاکستان کے سامنے ہے۔ مگر کوئی صوبہ کراچی کی مدد کے لئے نہیں آیا۔ کراچی نے تمام صوبوں کے لوگوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا مگر کراچی میں اُردو بولنے والوں کو پاکستان بنانے کی جس سزا کا آغاز قیام پاکستان کے بعد ہوا تھا وہ آج تک جاری ہے۔ جو حکومت آئی کراچی والوں سے وعدے کرتی رہی۔ متحدہ قومی موومنٹ کے ہاتھوں بلیک میل ہوتی رہی۔ مگر کراچی کے عوام کی داد رسی نہ ہو سکی۔ حال ہی میں اطلاع ملی ہے کہ بحریہ ٹاﺅن کے مالک ملک ریاض نے بھی 35 فیصد ڈولیپمنٹ چارجز صرف اپنے کراچی کے پروجیکٹس پر لگائے ہیں اور باقی صوبوں کے پروجیکٹس اس سے بری الذمہ ہیں۔ یعنی کراچی کے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے کیونکہ کراچی کا کوئی پرسان حل نہیں۔ نیا سلسلہ جو کراچی میں شروع ہوا ہے وہ بھی قابل شرم ہے کہ پولیس ٹریفک کی خلاف ورزی کرنے والے نوجوانوں کا ٹریفک چالان کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی FIR کاٹ رہی ہے۔ جو ایک خطرناک سازش ہے۔ یعنی چالان تو اپنی جگہ، اس کا جرمانہ اپنی جگہ مگر FIR کس لئے؟ وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی نوجوان جس کی FIR درج ہو، اسے سرکاری ملازمت میں مشکلات کا سامنا ہوگا۔ پاسپورٹ بنوانے کے لئے پولیس سے کلیئرنس میں مشکلات درپیش ہوں گی۔ یعنی کراچی کے نوجوانوں کو گھروں سے اٹھانے کا سلسلہ تو نہ رکا البتہ جو لوگ بچ گئے ہیں انہیں بھی کسی نہ کسی طرح مشکلات میں مبتلا کیا جائے تاکہ کراچی کے اُردو بولنے والوں کی نسلیں اپنے مستقبل کے تمام خوابوں کو اور آگے بڑھنے کے تمام جذبات سلا دیں۔ وزیر اعظم عمران خان کو سوچنا ہو گا کہ میرٹ کی بات کرنا بہت آسان ہے مگر اس کے لئے اقدامات بھی کرنا وزیر اعظم کی اوّلین ترجیح ہے۔ کسی ایک صوبہ میں کوٹہ سسٹم کے ذریعہ تعلیم یافتہ اور قابل افراد کو آگے بڑھنے سے روکنا بھی گناہ کبیرہ ہے۔ عمران خان کو انصاف کے ساتھ فیصلے کرنا ہوں گے۔ ورنہ کوئی اور الطاف حسین مستقبل میں نعرہ بلند کرے گا اور پسی ہوئی اور ستائی ہوئی قوم ایک بار پھر ہاتھوں میں بندوقیں لئے سڑکوں پر ہوگی۔ اس بار نہ وردی والے بچیں گے اور نہ حکومت کے با اثر افراد۔ ظلم جب انتہا تک پہنچ جائے تو پھر عذاب الٰہی نازل ہوتا ہے اور پھر گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔ اب بھی وقت ہے کراچی کے ٹیکس پر ملک چلانے والے سوچ لیں کہ یہ نا انصافی کب تک جاری رہے گی؟
