دنیابھر میں تیزی سے شہرت حاصل کرنے والا ٹک ٹاک ایپ کے بہت سے مثبت اور منفی پہلو ہیں۔ یہ ایپ 2016 ستمبر کے مہینے لانچ ہوا جس کے بعد دو سال کے اندر اتنی شہرت حاصل ہوئی۔ جتنی گزشتہ سالوں میں فیس بک اور دوسرے ایپ کو بھی حاصل نہیں ہوئی تھی۔۔ صرف دو سال میں پانچ سو ملین یوزرز بنانے والے ٹک ٹاک ایپ کا مقصد کیا ہے۔۔ اس بات کو سمجھنا مشکل ہے۔ کیونکہ اس ایپ کے ذریعے اب تک منفی عمل زیادہ رونما ہوتے نظر آئے ہیں۔
اس ایپ کی بیماری میں تقریبا ہر نوجوان گرفتار ہے۔۔ بلکہ یہ کہنا بھی غلط ہے۔۔ کہ صرف نوجوان ہی متاثر ہے۔ اس سے متاثر لاکھوں کروڑوں لوگوں کی فیلمیز بھی اس ایپ کی زد میں موجود ہیں۔۔۔اس وقت اس ایپ کو تقریبا 150ممالک کے لوگ استعمال کر رہے ہیں۔ اور پاکستان بھی ٹک ٹاک ایپ کے زد میں شکار ملکوں میں شامل ہے۔
پاکستانی حکام نے مختصر دورانیے کی ویڈیوز کی ایپ ٹک ٹاک پر غیر اخلاقی مواد کی شکایات موصول ہونے کے باعث پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔پاکستان میں مواصلات کے ریگولیٹری ادارے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی( پی ٹی اے ) کی جانب سے اس بارے میں باضابطہ طور پر اعلامیہ جاری کر دیا گیا تھا۔ ادارے نے اپنی پریس ریلیز میں کہا کہ معاشرے کے مختلف طبقاب کی جانب سے اس ایپ پر موجود مواد کے خلاف شکایات کی گئی تھیں۔
جس کےبعد پاکستان میں ٹک ٹاک پر پابندی کے خلاف جاپان کی معروف کاروباری وسماجی تنظیم پاک جاپان بزنس کونسل کی جانب سے احتجاج ریکارڈ کروایا گیا تھا۔۔ اس احتجاج ریکارڈ کے مطابق ملک میں دو دہائیوں سے جاری دہشت گردی خراب معاشی حالات اور کرپشن کے باعث پہلے ہی نہ تو کھیلنے کے لیے میدان بچے ہیں۔۔ اور نہ ہی نوجوانوں کے لیے ایسی سرگرمیاں موجود ہیں۔
جس سے نوجوان اپنے وقت کا بہترین استعمال کرسکیں۔۔ ٹک ٹاک جیسی ایپلی کیشن کے ذریعے نہ صرف نوجوان بلکہ بڑے بچے اور بوڑھے بھی صحت مند تفریح سے لطف اندوز ہورہے تھے۔۔ پر اگر بات حقیقت میں یہ ہے تو دوسرے ملکوں پابندی کی وجہ کیا تھی۔۔سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ پاکستان سے پہلے امریکہ اور بھارت میں بھی اس ایپ کے خلاف پابندی عائد کردی گئی تھی۔
حقیقت یہ ہے۔۔ ٹک ٹاک کے ذریعے بڑھتے ہوئے منفی مواد سے بننے والے حالات کے پیش نظر اس ایپ پر پابندی عائد کی گئی ہے لیکن اگر اس ایپ کے کچھ مثبت پہلو دیکھو تو ٹک ٹاک نے ایسے بے شمار لوگوں کو اپنا ہنر دکھانے کا موقع فراہم کیا۔۔ جنھیں شاید کوئی جانتا تک نہ تھا۔۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے ان میں کئی افراد راتوں رات سٹار بن گئے اور وہ میڈیا بھی انھیں توجہ دینے پر مجبور ہو گیا۔
جو پہلے انھیں نظرانداز کرتا رہا تھا۔۔ اس ایپ کے کچھ مثبت پہلو اگر اچھے ہیں۔۔تو اس کے ساتھ منفی پہلو بہت خطرناک ہیں۔۔ اس ایپ پر پابندی کی اہم وجہ بڑھتی ہوئی بےحیائی ہے۔۔ کیونکہ لوگوں رات تو رات فالوورز کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہے۔۔ صرف فالوورز زیادہ ہو جائے اس چکر میں ویڈیو بنانے کے دوران کئی لوگوں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔۔پاکستان میں ٹک ٹاک کے ذریعے ایک ایسی وبا کا آغاز ہو گیا ہے جس میں بے حیائی کی کوئی حد رہی نہیں ہیں۔۔ جب فالوورز زیادہ ہوجاتے ہیں تو اس ایپ کے ذریعے پیسے ملنا شروع ہو جاتے ہیں۔۔
جو بغیر کسی محنت کے پیسے کمانے کا بہترین ذریعے ہے۔۔ مگر ایسے پیسہ کسی کام کا جو ایک معاشرے میں آنے والی نسل کا بربادی کا سبب بن رہا ہو۔۔ اور وہ بربادی ایک گھر سے بہت سے گھروں کو دستک دیتی رہی ہوا۔۔۔ اگر ان ایپ کے ساتھ سوشل میڈیا کے دوسرے ایپ پر بھی غور کرو۔۔تو وہ بھی مثبت اثر دینے سے خالی نظر آتے ہیں۔ آج بچہ بچہ نیٹ کے استعمال کو جانتا ہے نیٹ کے استعمال سے جتنا فائدہ اٹھانا چاہئے اس سے کئی گناہ زیادہ انٹرنیٹ کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ وہ خواتین جو چار دیواری میں ہی رہتی تھی جو کبھی بازار بھی اکیلے نہیں جاتی ہوگی۔
آج ایسی خواتین چار دیواری بھی عام آدمی کے لیے اس ایپ کے ذریعے نمائش کا مرکز ہوتی ہیں۔ اس طرح کی خواتین یا لڑکیوں کو اندازہ بھی نہیں ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات کی نمائش کر کے اپنی بربادی کا سامان اکھٹا کررہی ہوتی ہیں۔۔ایسا سامان جو کچھ وقت کی مایا ہے بعد میں ایک جہنم ہے۔۔ اگر دیکھا جائے تو اس ایپ کے ذریعے بہت سے لوگ درست عمل سے خود اپنی صلاحیتیں کو پیش کرنے میں ناکام ہے۔۔ بلکہ کچھ لوگوں ہی ہیں۔۔
جو اپنی جسم کی نمائش سے نہیں۔۔ بلکہ اپنی حقیقی صلاحیت کے سبب اسٹار بنے ہوئے گئے ورنہ زیادہ تر اس ایپ کے ذریعے بے حیائی کو فروغ ہوتی نظر آتی ہے۔ لڑکے، لڑکوں کے ساتھ بے حیائی میں ڈوبی ہوئی ویڈیو میں نظر آتے ہیں۔ اس طرح کے منفی عمل کا کوئی بھی مذہب اجازات نہیں دیتا ہے۔۔ اور نہ ایسے منفی عمل کے ذریعے پیسے کمانے کو درست کہتا ہے۔۔ اس ایپ کے ذریعے عزت نفس کو قتل کیاجارہا ہے وہ عزت نفس جو اگر مر جائے تو انسان پیسے کمانے کی تمیز کھودیتا ہے۔
ٹک ٹاک پر بنائی گئی ویڈیو کو دیکھو تو ایسا لگاتا ہے جیسے یہ لوگوں ذہنی طور پر بیمار ہو گئے ہیں۔ مزاحیہ ویڈیو بھی بے حیائی کے الفاظ پر بنی ہوتی ہے۔ جن کو معلوم ہی نہیں ہے کہ وہ کر کیا رہے ہیں۔ ہر انسان کے اندر کچھ نہ کچھ صلاحیت موجود ہوتی ہے۔۔ جو اس کے لیے اپنے رب کی طرح سے ایک نعمت ہے۔۔ ان صلاحیت کے استعمال سے انسان اپنی ذات کو دوسرے لوگوں میں تعریف کے قابل بناسکتا ہے۔۔ اور اگر جائزہ لیا جائے۔ تو ایسے ایپ کے بننے سے پہلے بہت سے لوگوں اپنی صلاحیت پہچان کر ان کے استعمال سے دنیا میں اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کر رہے تھے۔
یہ لوگوں پیسہ کے لیے نہیں بلکہ عزت کمانے کے لیے اپنی حقیقی صلاحیت سے دنیا کے سامنے اسٹار بننے تھے۔۔ اب بات ایپ سے بننے والے اسٹار کی کی جائے تو اس میں حقیقی صلاحیت کے ممالک لوگ کم ہی ملے گئے اور دوسری طرف وہ لوگ جو پیسہ کمانے کی وجہ سی کچھ بھی کرنے کو تیار ہے اور وہ کرتے بھی ہیں۔۔ ایسے لوگوں کو اسٹار کہنا غلط ہوگا۔۔ صرف پیسہ کمانے اور اپنی عزت ونفس کو قابو کر کے عزت کے ساتھ دولت کمانے میں فرق ہوتا ہے۔۔۔اور دن بہ دن لوگ اس تمیز کو بھولتے جا رہے ہیں۔۔ جو ایک غورفکر کی علامت ہے۔ اس پر غور فکر نہیں کیا گیا تو آنے والی نسل بے حیائی سے دولت کمانے میں ان ایپس کے استعمال میں چار ہاتھ آگے ہوگئی۔۔
سب سے پہلے ٹک ٹاک یا دوسرے ایپس پر پابندی کے بجائے قانونی اقدامات عمل میں لانے اہم ضرورت ہے۔۔ آج صرف ٹک ٹاک ہے کل اور کوئی اس طرح کا ایپ لانچ ہوگا۔۔ ان تمام تر منفی عمل کے روک تھام اہم ضرورت نئے قانون کی ہے۔۔ قانونی اقدامات کے ذریعے بےحیائی اور دوسرے غیر اخلاقی مواد پر ٹھوس کارروائی عمل میں لائی جائے۔۔ تاکہ حقیقی صلاحیت کے ممالک لوگ آگے آئے اور بے حیائی کو کم کرنے میں آسانی ہو۔۔ کیونکہ انٹرنیٹ جدید دور کی دنیا کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس لیے اس کے استعمال پر بھی کو قانون بنانے کی اہم ضرورت ہے۔