امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 555

پاکستانی ریستوران کے خلاف ایک خاتون ورکر کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا فیصلہ

اب سے چند ہفتہ پہلے کینیڈا کے ایک ریستوراں کے مالکان اور ایک ملازم کے خلاف ایک خاتون کارکن کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور زیادتی کرنے کے مقدمے کے فیصلے میں چالیس ہزار ڈالر کا جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ یہ مقدمہ کئی سال سے صوبہ اونٹاریو کے انسانی حقوق کے ٹریبیونل میں میں چل رہا تھا۔ مقدمہ کی تفصیلات کمیشن کی ویب سائٹ پر دیکھی جاسکتی ہیں:
https://tinyurl.com/y4jja5ov
یہاں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ یہ معاملات ہمارے سماج میں عام ہیں، لیکن ہماری اپنی کمیونٹی میں یہ اور بھی تکلیف دہ لگتے ہیں۔
اس مقدمہ کی تفصیلات کے علاوہ اس میں اور کئی امور بھی اہم ہیں۔ ان میں معاشرے کی بے اعتنائی، صحافیوں کا خبروں کو دبانا، اور، ہر خاتون اور بالخصوص جنوبی ایشیائی خواتین کے ساتھ طرح طرح کی زیادتیاں شامل ہیں۔ ہم ان میں سے ہر ایک پر کچھ روشنی ڈالیں گے۔ ہم نے اس خبر کا اشارہ ایک معزز صحافی کی فیس بک پوسٹ پر دیکھا۔ لیکن ہمارے استفسار پر انہوں نے تفصیل بتانے سے انکار بھی کیا، پھر یہ تاویل پیش کی کہ انہیں اس کی اجازت نہیں۔ کسی بھی صحافی کو عدالتی فیصلوں کی خبر دینے میں کوئی ممانعت نہیں ہے، بشرطیکہ عدالت نے پابندی عائد نہ کی ہو۔
تفصیلات کے مطابق کینڈا کے معروف پاکستانی ریستوراں Eat More (جو اب بند ہو چکا ہے)کی ملازمہ رَونیت کَور ، نے سنہ 2014 میں اونٹاریو کے انسانی حقوق کے ٹریبیونل میں شکایت داخل کی کہ اس ریستوراں کاپاکستانی ملازم ، ظہیر، ان کو جنسی طور پر ہراساں کرتا رہا ، اور زیادتیاں کرتا رہا۔ اور یہ کہ ریستوران کے مالکان نے خاتون کی شکایت سنی ان سنی کردی۔ تفصیلات میں یہ بھی درج ہے کہ، ریستوراں کے مالکان مسٹر احمد، مسٹر ملک، اور ایک منیجر مس شہباز، اس خاتون کے ساتھ اچھے طور سے پیش آتے رہے اور انہوں نے اسے اس کے کام کی بنیاد پر ترقی بھی دی، اور وہ رفتہ رفتہ چھوٹے چھوٹے کام کرتے ہوئے ، ریستوراں ویٹر بھی بن گئی۔
کچھ ہی دنوں میں ظہیرنامی شخص نے اس کو غلط طور پر چھوا، اور اپنے فون پر برہنہ فلمیں دیکھتے ہوئے ، اس نے اونیت کور کو بھی اس کے سخت انکار کے باوجودبھی دکھانے کی کوشش کی۔ صابر شروع میں نان بناتا تھا۔ اس کی وجہہ سے شکایت کنندہ کو ہر وقت اس سے واسطہ تھا۔ اس نے خاتون سے گفتگو میں ذاتی سوال کر شروع کر دیئے۔ کیا وہ شادی شدہ ہے، کیا اس کا کوئی بوائے فرینڈ ہے، وہ کہاں رہتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ پھر اس نے اس کے ساتھ گندے مذاق شروع کر دیئے۔ مثئلاً ، تم کیلا کیوں کھار ہی ہو۔ جب خاتون کا ہاتھ ٹوٹ گیا تو ظہیر نے پوچھا کہ کیا تم نے اس ہاتھ کا زیادہ استعمال کر لیا۔ بادی النظر میں یہ عام جملے ہیں، لیکن ان کے کچھ بازاری معنی بھی ہیں جن میں ہمیشہ ایک جنسی اشارہ بھی ہوتا ہے۔
اس نے یہ بھی کہا کہ کئی بار جب وہ نان لینے جاتی تو ظہیر اس کو عجیب نظر سے دیکھتے ہوئے اپنے اعضائے مخصوصہ کو چھوتا تھا۔ جولائی 2016ءمیں ظہیر کو ملازمت سے نکال دیاگیا، کیوں کہ اس نے کسی پر چاقو اٹھالیا تھا۔ لیکن اس کے بعد ہی اسے دوبارہ رکھ لیا گیا۔ کچھ عرصہ کے بعد خاتو ن کی گاڑی کے ٹائر کاٹ دیئے گئے۔
یہ اہم ہے کہ ریستوراں کے مالکان اور مس شہباز ، خاتون کی شکایتیوں کو نظر انداز کرتے رہے۔ اس کے بعد اس نے پولس میں شکایت کی۔ پولس نے اس سے رستوران کے سیکیورٹی ویڈیو مانگ لیئے۔ لیکن مالکان نے ویڈیو دینے سے انکار کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے خاتون سے پوچھا کہ وہ پولس کے پاس کیوں گئی۔ اور اسے برخواست کر دیا۔اس کے بعد خاتون نے انسانی حقوق ٹریبیون میں شکایت کی،
اس مقدمہ کی تفصیلات طویل اور سنسنی خیز ہیں۔ ٹریبیونل نے سب شہادتوں اور بیانات کے بعد فیصلہ کیا کہ خاتون کی شکایت جائز ہے، اور قانون کا پلڑا اس کی حمایت میں ہے۔ جس کے نتیجہ میں صابر اور ریستوران کے مالکان شریک ذمہ دار ہیں۔ اس لیے
ان پر چالیس ہزار ڈالر کا جرمانہ کیا جاتا ہے۔ مالکان اس لیئے کہ انہوں نے خاتون کو تحفظ فراہم نہیں کیا۔
اس مقدمہ کے کئی پہلو ہیں۔ پہلا تو یہ کہ ہماری خواتین بہت ہی سستی ملازمیں کر نے پر مجور ہیں۔ اور اس دوران ان کے ساتھ طرح طرح کی زیادتیا ں کی جاتی ہیں ، اور انہیں انصاف نہیں ملتا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی بھی خاتون شوق سے انتہائی کم تنخواہ پر ناگفتہ حالات میں کام نہیں کرتی۔ وہ ہمہ وقت بیروز گاری کا خوف رکھتی ہے اور بوجھ اٹھاتی ہے۔
اس فیصلہ میں ہر پاکستانی یا جنوبی ایشیائی کے لیئے سبق ہیں۔ یہ کاروباری کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر کارکن بالخصوص خواتین کو صحت مند ماحول فراہم کرے۔ اس کا فرض ہے کہ کسی بھی عام یا جنسی زیادتی کی شکایت پر درستی کے اقدامات کرے، اور زیادتی کرنے والوں سے علیحدگی اختیار کرے۔
ہمیں کینیڈا کے ہر اس دیسی اور جنوبی ایشیائی صحافی سے گلہ ہے کہ وہ یا تو ان خبروں کی اشاعت نہیں کر تے، یا مختلف مصلحتوں کے تحت دبانے یا چھپانے کی لوشش کرتے ہیں۔ جب کہ کینیڈا میں انہیں ایسا کرنے کی تو بالکل ہی ضرورت ہی نہیں ہے۔ جو یہ سوچتا ہے کہ خبر چھپانے سے پاکستانی، مسلمان، یا دیسی بدنام ہوں گے ، تو انہیں یاد رکھنا کہ جب یہ خبر مرکزی میڈیا میں شائع ہوگی تو کس کی عزت بچی گی۔ہم پر اور آپ پر یہ شہری اور معاشرتی فرض ہے کہ ہم سب مل کر سب خواتین کے ساتھ زیادتیو ں کے خلاف کھڑے ہوں اور ہر آن آواز بلند کرتے رہیں۔ اور اپنے ہر جاننے والے کاروباری کو ان معاملات کی اہمیت اور نزاکت بتاتے رہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں