آج کا کالم نئے سال کا پہلا کالم ہے اور سال کے پہلے ہی روز اسے مسجد کے زیر سایہ لکھنے کی کوشش کررہا ہوں۔ دراصل آج کا منگل والا روز بالکل چھٹی والے روز کی طرح سے ہو گیا ہے کیونکہ ٹورنٹو میں کاروبار زندگی بند ہے اس لئے احساس ہی نہیں ہوا کہ آج کالم لکھنے کا روز ہے اسی لئے بہت ہی جلدی اور عجلت میں صفحے سیاہ کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔ ویسے تو ہر بار ہی کالم عجلت میں لکھتا ہوں اور یہ سوچ کر کالم کو چلنے دیتا ہوں کہ اخبارات میں پروف ریڈنگ کا موثر نظام موجود ہوتا ہے جو پراسیکیوٹر کی طرح سے کام کرتا ہے وہ خبروں اور کالموں میں رہ جانے والی غلطیوں اور غیر ضروری الفاظ اور جملوں کی نوک پلک خود ہی سنوار لیتا ہے اس لئے میں ہمیشہ سے عجلت میں لکھے گئے کالم کے باوجود اطمینان کا سانس لیتا ہوں۔
کالم کی شروعات پروف ریڈروں کی ضرورت زندگی کے ہر شعبے میں پیش آتی ہے، چاہے وہ قانون و انصاف کا شعبہ ہو یا سیاست کا، آپ کو ہر جگہ یہ پروف ریڈر ایک دو نہیں لاتعداد دکھائی دیں گے۔ قانون و انصاف میں انہیں پراسیکیوٹر یا پھر سرکاری وکیل کا نام دیا جاتا ہے اسی طرح سے سیاست میں انہیں سینیٹر یا پھر سینیٹ کہا جاتا ہے۔ ان پروف ریڈروں کا دیانتدار ہونے کے ساتھ ساتھ با صلاحیت اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے۔ اس لئے کہ انہیں قابل ترین لوگوں کی غلطیوں کو پکڑ کر انہیں دُرست کرنا ہوتا ہے یعنی اخبار کے پروف ریڈر کو اخبار کے ایڈیٹر سمیت وہاں کام کرنے والے تمام جرنلسٹوں سے زیادہ علم والا اور معلومات والا ہونا چاہئے۔ اس طرح سے پراسیکیوٹر کو قانون کے معاملے میں پولیس اورجج سے زیادہ ذہین اور قانون دان ہونا چاہئے۔ اس طرح سے سینیٹر کو عام سیاستدانوں کے مقابلے میں سیاست اور جمہوریت کا زیادہ فہم اور ادراک ہونا چاہئے۔ اس لئے کہ انہوں نے پورے ملک کے لئے قانون سازی کرنے ہوتی ہے۔ وہ قانون سازی جو قومی اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد سینیٹ میں ان کے پاس پروف ریڈنگ کے لئے آتی ہے اس کو اچھی طرح سے کھنگال کر اس میں وہ تمام غلطیوں اور خلاءکو دور کرنے کوشش کرنا ان کی ذمہ داری ہوتی ہے تاکہ کوئی غلط قانون نہ بن جائے۔ اس لئے ان سینیٹروں پر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ یہ تو میں نے ان شعبوں کی تعریف کردی کہ ان کا کام کیا ہے؟ اور اس میں کس طرح کے لوگ ہونے چاہئے؟ اب کس طرح کے لوگ یہاں ہیں اور وہ کس طرح سے یہاں پہنچے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ پاکستان میں جس طرح سے سینیٹ کا الیکشن ہوتا ہے اس کی نظیر پوری جمہوری دُنیا میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ اس طرح کے لوگ سینیٹر بن جاتے ہیں جو اپنے اپنے حلقوں سے کونسلر کا معمولی الیکشن جیتنے کی استطاعت نہیں رکھتے لیکن اسی حلقے کے ایک دو نہیں چار ایم پی اے اسے ووٹ دے کر سینیٹر بنا دیتے ہیں۔ اس سے بڑا مذاق جمہوری تاریخ میں اور ہو نہیں سکتا۔ یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ اس طرح سے بعض اوقات تو خرید و فروخت کی بناءپر ہوتا ہے اور بعض اوقات موروثی سیاست کی وجہ سے۔۔۔ جب اس طرح کے طریقہ کار سے کوئی شخص اتنے بڑے ایوان کا ممبر بنے گا تو پھر اس کی قابلیت پر ایک دو نہیں لاتعداد سوالات کھڑے ہوں گے۔ وہ پھر کس طرح سے قومی اسمبلی سے پاس کئے جانے والے کسی بھی غلط قسم کے قانون میں ردوبدل کرسکے گا؟ اولاً تو اس میں خود ہی اتنا فہم و ادراک نہیں ہوگا کہ وہ کسی قانون کی خامیوں کو تلاش کرسکے اور اگر غلطی سے وہ ایسا کر بھی لے تو کیا اس میں اتنی جرات ہو گی کہ وہ قانون میں ردوبدل کرسکے۔ بالکل بھی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عدالتوں سے کسی طاقتور کو کوئی سزائیں نہیں ہوتی اس لئے کہ وہاں پراسیکیوشن کے شعبے میں اسی طرح کے قابل لوگ بھرتی کئے گئے ہیں جس طرح سے سینیٹ میں قابل لوگوں کو بھیجا گیا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ سینیٹ وہ کام نہیں کررہی ہے جو جمہوری ملکوں کی سینیٹ کرتی ہے۔ آج پاکستان کی سینیٹ خود ملکی خزانے لوٹنے والوں کی سب سے بڑی حامی بن گئی ہے اور ہر قانون سازی کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن رہی ہے۔ جب تک پاکستان میں پروف ریڈنگ کے اس شعبے کو خودمختار اور قابل فہم نہیں بنایا جائے گا اس طرح کے قانونی اور سیاسی مسائل پیدا ہوتے رہیں گے۔ اس لئے حکومت کو اس جانب خاص طور سے توجہ دینی چاہئے۔
