آج کل ، ’پنڈورا پیپرز، کا غلغلہ ہے۔ اس سے پہلے پناما پیپرز کا غلغلہ تھا۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ سب کچھ آپ کو ذہنی انتشار میں مبتلا کرتا ہو گا۔ اب سے پہلے کا خلاصہ یہ ہے کہ کچھ صحافیوں نے یا اعداد و شمار کی تفتیش کرنے والوں نے پناما میں قائم ان اداروں کے بارے میں خفیہ معلومات نشر کی تھیں ، جو دنیا بھر کے لوگوں کو خفیہ بنک اکاوئنٹ کھولنے یا خفیہ کاروبار جمانے میں مدد کرتے تھے۔ اس کے نتیجہ میں ایسے ہزاروں افراد کے نام نشر کیئے گئے جو ان خدمات سے استفادہ کرتے تھے۔ ان خدمات کا حاصل کرنا عام طور پر غیر قانونی نہیں ہوتا ، بشرطیکہ ان کے ذریعہ کسی ملک کی قانون شکنی نہ کی گئی ہو۔
گزشتہ بار جب ایسا ہوا تو اس میں پاکستان کے سیاستدانوں، فوجی افسروں ، اور کاروبار یوں کے سینکڑوں نام منطرِ عام پر آئے۔ ان میں صرف نواز شریف اور ان کے اہلِ خانہ یا حواریوں کو گھیرا گیا۔ کسی پر بھی مالی قانون شکنی ثابت نہ کی جا سکی۔ سو نواز شریف کوصرف اس بنیاد پر نااہل قرار دیا گیا کہ انہوں نے کسی زمانے میں دوبئی میں کاروبار کے لیئے رہائش نامہ حاصل کیا تھا۔ اس کے بعد کی کہانی آپ خوب جانتے ہیں۔ یہ ضرور یاد رہے کہ اس داستان میں شامل باقی سینکڑوں افراد کے بارے میں جن میں فوجی افسر اور عمران خان کے حواریوں وغیرہ کے خلاف کسی تحقیق کا نتیجہ سامنے نہ آسکا۔
تازہ ترین کہانی اور بھی سنسنی خیز ہے۔ پہلے تو یہ جاننے کی کوشش کریں کہ اس بار بین الاقوامی تفتیشی صحافیوں کی ایک تنظیم نے اس ضمن میں ’پنڈورا پیپرز‘ کا عنوان کیوں استعمال کیا۔ آپ کی دلچسپی کے لیے اس کا پس منظر بیان کرتے ہیں۔ یونانی دیومالا کے خداﺅں میں بڑے خدا ، Zeus کے حکم پر ایک چھوٹے خدا Hephaestus نے پہلی انسانی عورت Pandora تخلیق کی تھی۔ اس کے شوہر کے پاس ایک بڑا مرتبان تھا جس میں دینا بھر کی بدیاں ، بد عادتیں، بیماریاں، او ر آفات محفوظ تھیں۔ پنڈورا نے ایک بار یہ جاننے کے لیئے اس کے شوہر نے اس مرتبان میں کیا چھپارکھا ہے،اس مرتبا ن کا سربند ڈھکن کھول دیا۔ اس کے نتیجہ میں مرتبا ن سے ہزاروں آفات، خرابیاں، اور بلایئں ابھر کر ساری دنیا میں پھیل گیئں اور انسانوں کی زندگی ابد تک کے لیئے اجیرن ہو گئی۔ کہتے ہیں کہ اس مرتبان میں صرف ایک ’امید ‘، یا ایک نیک خدا باقی رہ گیا تھا، اور اب بھی ہے۔ اسی وجہ سے Pandora Box کی اصطلاح وجود میں آئی جس کا مطلب کوئی ایسی چیز یا بات ہے جسے افشا کرنے میں سخت آزار کا امکان ہو۔
تفتیشی صحافیوں کی عالمی تنظیم نے اپنی رپورٹ جاری کرنے میں پنڈورا کا نام یوں استعمال کیا کہ ان کی دانست میں اس میں دنیا کے تقریباً ہر ملک کی اشرافیہ کے افراد کی ممکنہ مالی قانون شکنیوں کی کہانیا ں ہیں۔ جن کو جان کر عوام فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ان کے ملک کی دولت کون لوٹ کر خفیہ طور پر ملک سے باہر چھپاتا ہے یا چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔
اس میں پاکستان کے سا ت سو سے زیادہ سرکردہ افراد شامل ہیں، جنہوں نے بیرونِ ملک بنکوں میں رقم چھپائی یا بیرون ملک خفیہ کاروبار کیے۔ معروف ترین افراد میں عمران خان کی کابینہ کے اراکین، جماعت کے افراد، اور ان کے کئی مالی مددگار شامل ہیں۔ جن میں سے کچھ کے نام ہیں: وزیرِ خزانہ شوکت ترین،پانی کے وزیر مونس الٰہی، سابق وزیر فیصل واڈیا، وزیر اعظم کے سابق وزیر وقار مسعود کا بیٹا عبداللہ مسعود، وزیرِ صنعت خسرو بختیار کا خاندان، تحریکِ انصاف کے رہنما علیم خان، تحریک انصاف کی مالی اعانت کرنے والے عارف نقوی (جن پر امریکہ نے سخت الزامات عائد کیئے ہیںِ، اور وہ آج کل برطانیہ میں نظر بند ہیں۔وہ کراچی الیکٹرک کے مالکوں میں بھی شامل تھے)، تحریک انصاف کے مالی مدد گارطارق شفیع، اور دیگر شامل ہیں۔ اس کے ساتھ کئی فوجی افسران یا ان کے اہلِ خاندان کے نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ کاروباریوں میں شامل افراد میں کچھ یوں ہیں: عارف عثمانی ( جنہیں عمران خان کی حکومت نے نیشنل بنک کا صدر بنایا )، نیشنل انوسٹنٹ ٹرسٹ کے سربراہ ، عدنان آفریدی ( واضح رہے کہ یہ ادارہ عوامی دولت کی سرمایہ کاری کرتا ہے)، پشاور زلمی کے مالک جاوید آفریدی، (جو عمران خان کے قریب جانے جاتے ہیں)، وغیرہ۔
اس فہرست کے نشر ہونے کے بعد امید تو یہ تھی (پنڈورا کے مرتبا ن میں بھی تو امید ہی باقی رہ گئی تھی) ، کہ عمران خان کوئی سخت قدم اٹھایئں گے۔ لیکن انہوں نے وہی کیا جو جب سب کرتے آئے ہیں کہ ٹال مٹول کے طور پر ایک کمیشن بناد یا، جس کی سربراہی انہوں نے اپنے ہی وزیر ِ قانون فروغ نسیم کو سونپ دی۔ یہ وہی فروغ نسیم ہیں جو جنرل مشرف کے قریب جانے جاتے تھے۔ پھر ایم کیو ایم سے فایئدہ اٹھانے کے بعد ، عمران خان کے قریبی حواری بن گئے۔ گزشتہ دنوں عمران خان کی حکومت ان کو کبھی وزیرِ قانون بناتی تھی کبھی انہیں جسٹس عیسیٰ ، کو زچ کرنے کے لیئے وزارت سے ہٹا کر وکیل بنا دیتی تھی۔ اور وہ سپریم کورٹ میں قانونی چمتکاری دکھاتے تھے۔ ہم نے اب سے پہلے بھی ایسے بے دانت کے کمیشن دنیا میں ہر جگہ دیکھے ہیں۔ جو نشستند و گفتند و برخواستند کے بعد معاملات کو ٹایئں ٹایئں فش کر دیتے ہیں۔
ہماری اس لن ترانی کا خلاصہ یہ ہے کہ سیاسی پاکبازی کے دعویدار عمران خان بھی اسی تھیلی کے چٹّے بٹّے ہیں جو ہماری قسمت میں پنڈورا کے مرتبان کی صورت لکھی گئی ہے، جس میں باقی بچی امید بھی اب رفو چکر ہو چکی ہے۔
258