اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار ”سیاست“ بن گیا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے بڑے بڑے تاجروں، سوداگروں اور بزنس مینوں نے براہ راست یا بالواسطہ طور پر سیاست میںانٹری دینے کا سلسلہ شروع کردیا ہے جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ بحیثیت تاجر یا سوداگر وہ کسی بھی کاروبار کو سو فیصد یا یقینی طور پر منافع بخش یا کامیاب کاروبار نہیں کہہ سکتے۔ لیکن پاکستان میں سیاست کو سو فیصد کامیاب اور سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار کہا جا سکتا ہے۔ اس کاروبار میں لوہے کی انویسٹمنٹ کرنے والا سونا وصول کرتا ہے اور جب کسی کاروبار میں منافع کا تناسب اس طرح کا ہو جائے تو پھر کوئی احمق ہی ہوگا جو سوداگر ہونے کے باوجود سیاست کے کاروبار سے دور رہے۔ یہ قانون قدرت ہے کہ انسان زمین میں جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے یعنی اگر کوئی کیلے کا بیج لگا کر وہاں سے آم کے پیڑ نکلنے کی آس لگائے تو ایسا ممکن نہیں۔ لیکن سیاست کی سرزمین اس طرح کی ہے کہ انسان لوہے کی انویسٹمنٹ کرنے سے پیتل اور چاندی نہیں بلکہ سونا اور پلاٹینم ہاتھ لگتا ہے اس لیے کہ سیاست کی زمین پر آبیاری میں پانی سے نہیں بلکہ قوم کے خون سے کی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ آج ملک کے سیاستدانوں کی دولت ایک طرف اور پورے ملک کے عوام کی دولت اور خود ریاستی اداروں کی مجموعی قیمت ایک طرف ہے۔ دونوں میں کسی بھی لحاظ سے توازن نہیں ہے۔ پورا ملک سیاستدانوں کے سامنے بھکاری بنا ہوا ہے کیونکہ ان سیاستدانوں نے اقتدار میں آنے کے بعد سوائے لوٹ مار کے اور کچھ نہیں کیا اور اس طرح کے قانون بنائے کہ کوئی انہیں روکے اور ٹوکنے والا نہ رہے۔ آج اس طرح کے جملوں سے کالم کی شروعات کرنے کا مقصد اس بیماری کو عوام کے سامنے اجاگر کرنا ہے جس نے پورے ملک کو دیمک کی طرح سے چاٹ لیا ہے اور اس بیماری کا نام ”سیاست“ ہے اس طرح کی سیاست جس میں ذاتی فائدے کے سوا کچھ نہیں۔ پاکستان کے سیاستدان جھوٹے مکار بے ایمان اور چالباز ہیں ان کا کام قوم کو بے وقوف بنانے کے سوا اور کچھ نہیں یہ قوم کو گمراہ کرتے ہیں اور انہیں اندھیرے میں رکھتے ہیں اپنیلوٹ مار دھوکہ دہی کو سیاسی انتقام کا نام دے کر اپنے ہی عوام کو دھوکہ دیتے رہتے ہیں ان سیاستدانوں نے اپنے مکر و فریب سے جمہوریت کو اس طرح سے قابل نفرت بنا دیا ہے کہ مجھ جیسا شخص بھی دن رات جمہوریت کو کوستا رہتا ہے اس جمہوریت نے پاکستانی عوام کو پیدائشی مقروض بنا دیا ہے وہ قرضہ جو سیاستدانوں نے اپنی عیاشیوں پر خرچ کیا ہے وہ اسے پاکستان میں جنم لینے والوں کو ادا کرنا پڑ رہا ہے جس رقم سے سیاستدانوں نے بیرون ملک جائیدادیں خریدیں ہیں وہ قرضہ پاکستانی قوم کو بمعہ سود کے ادا کرنا پڑرہا ہے۔ یہ ہے سیاست و جمہوریت کے وہ کارنامے جس کی قیمت قوم کو چکانا پڑ رہی ہے۔ اسی لیے تو میں نے سیاست کو کاروبار کا نام دیا ہے۔ ان سیاستدانوں نے پوری قوم کو اپنا مزارعہ بنا دیا ہے جو انہیں ووٹ بھی دیتے ہیں اور اس کے بعد ان پر خرچ کیے جانے والے سرمایہ سے یہ سیاستدان اپنی تجوریاں بھرتے ہیں یہ اس قدر بے شرم اور ڈھیٹ ہیں کہ قوم کو اتنا بڑا ٹیکہ لگانے کے بعد بھی خود کو قوم کا رہبر کہتے ہیں اور اپنا مقدمہ قانون سے لڑنے کے بجائے عوامی عدالت میں لے جانے کی دھمکی دیتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ قوم تو ہماری مزارعہ بن چکی ہے ان سے جیسا کہا جائے گا وہ ویسا ہی کریں گے اور ویسے بھی ان میں سوچنے اور سمجھنے کی کون سی صلاحیت رہ گئی ہے ان کو تو کھانے کے اس طرح سے لالے پڑ گئے ہیں کہ وہ ایک بریانی اور قیمے والے پراٹھے کے عوض جلسے جلوس اور یہاں تک کہ ووٹ دینے پر بھی آمادہ ہو جاتے ہیں جس قوم کی ذہنی اور جسمانی حالت اس طرح کی ہو جائے یا پھر کردی جائے تو پھر وہاں اسی طرح کی خون چوسنے اور ملک کو کھوکھلا کرنے والی سیاست ہو گی اور پھر وہاں کے سیاستدان ملک اور قوم سے زیادہ امیر بنتے جائیں گے ہمارے ان سیاستدانوں کا سینیٹ کے الیکشن اور اس کے نتائج پر یہ کہنا تھا کہ آج سیاست اور جمہوریت ہار گئی اور اسٹیبلشمنٹ جیت گئی۔ میرے خیال میں ان کا کہنا درست ہے انہیں اسٹیبلشمنٹ کے بجائے ریاست کا لفظ استعمال کرنا چاہئے تھا اس لیے کہ سینیٹ کے یہ الیکشن اور اس کے نتائج کا مقابلہ ایک لحاظ سے سیاست اور ریاست کے درمیان تھا اور خدا کا شکر ہے کہ اس مقابلے میں ریاست جیت گئی اور اس جیت نے ریاست کو اس قانونی بحران میں مبتلا ہونے سے بچا لیا۔ جیسے خود سیاستدانوں نے ایک جال کے طور پر ریاست کو گھیرنے کے لئے بنا تھا تانکہ وہ اس طرح کی قانون سازی کریں کہ ریاست خود کو کمزور اور تباہ کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے بجائے صرف تماشہ دیکھتی رہے لیکن اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ ایسا نہیں ہوا جس طرح سے سیاستدانوں نے سوچا تھا ریاست نے اس طرح سے کرکے ایک طرح سے پاکستان کی لنگڑی لولی قوم کی نمائندگی کی۔ کہنے کو سیاسی اور جمہوری زبان میں یہ ایک غیر آئینی قدم تھا لیکن ”لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے“ کے مصداق ایسا کرنا ضروری تھا ورنہ مدرپدر آزاد جمہوریت اور سیاست سلطنت خداداد پاکستان کے لئے زہر قاتل بنتی جارہی تھی اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے اسی لیے پاکستانی عوام کو چاہئے کہ وہ ان سوداگر اور تاجر سیاستدانوں کو پہچانتے ہوئے ان کا بائیکاٹ کریں اس طرح کے لوگوں کو کامیاب کروا کر ایوانوں میں پہنچائیں جو ان کی آواز بن سکے جو ان کے حقیقی رہنمائی کرتے ہوئے ان کی مشکلات میں کمی کریں اور ان کی فلاح کی راہیں ہموار کرنے کا ذریعہ بنتے ہوئے ان کے لئے مسیحا ثابت ہوں۔
822