گزشتہ ہفتہ بیروت پر ایک بار پھر روح فرسا قیامت ٹوٹی ، اور بیروت کے ظالم حکمرانوں اور سیاستدانوں کی بد عنوانیوں دہرا گئی۔اوردنیا بھر میں نہ صرف لبنان اور بیروت کے تارکین ِ وطن بلکہ دنیا بھر کے اہلِ درد کو لہو رلا گئی۔ اس درد کو وہ سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے پاکستان ، کراچی، سندھ ، بلوچستان، خیبر پختون خوا کے شہریوں کی طرح یہ درد جھیلا ہے ، اور اس درد کو اپنا جانا ہے۔ اپنی ایک نظم میں فیض نے بیروت کو ’نگارِبزمِ جہاں‘ قرار دیا تھا۔ ایسی ہی ایک نگارِ بزم ِ جہاں کراچی بھی تھا۔
ہم یہاں کراچی کا حوالہ ایک استعارہ کے طور پر دے رہے ہیں۔ یہ استعارہ ہے ہر ملک میں چاہے وہ ایشیا میں ہو، افریقا میں ہو، یا لاطینی امریکہ میں، اس جبر کا استعارہ ہے جو ہر ملک کی فوجی اور عسکری قوتیں برپا رکھتی ہیں۔ یہ استعارہ اس ساری حکومتی بد عنوانی کا استعارہ ہے جہاں روزِ آزادی ہی سے سیاسی نظام ، عسکری قوتوں کے زیرِ نگیں ہوتا ہے۔ چاہے عسکری قوتیں خود اپنی من مانی کرتی ہوں یا اپنے ملکوں میں غیر ملکی قوتوں کی خدمت گزار ہوں۔
بحیرہ روم پر واقعہ ملک لبنان کا دا رالحکومت ایک طرف تو دنیا کے ہر استحصالی ملک کی طرح اہلِ جبر ودولت کی لوٹ مار کی اجازت کا مرکز رہا، اور دوسری طرف مظلوموں اور کم درجہ شہریوں کی پناہ گا ہ بھی رہا ہے۔ یہاں نہ صرف لبنان کے اپنی شہری روزگار کی تلاش میں آبسنے پر مجبور ہیں بلکہ یہ مظلوم فلسطینیو ں کی پناہ گا بھی رہا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح کراچی پاکستان کے ہر شہری کو روز گار کے مواقع بھی دیتا رہا ، اور جس طرح افغان پناہ گزینوں کو بھی کشادہ دلی سے خوش آمدید کہتا رہاِ۔
آج بھی دنیا کے عرب تارکینِ وطن میں لبنانی اور فلسطینی کا فرق کرنا دشوار ہوتاہے ، جب تک کہ وہ خود واضح نہ کردیں۔ لبنان اور بیروت سالہا سال سے خانہ جنگی کا عذاب جھلیتے رہے ہیں۔ اس میں شیعہ ، سنّی، مسیحی، او ر دورزی تفرقہ بھی شامل ہے۔ اور لبنان کے پڑوسی ممالک یعنی، شام، اسرائیل، اردن ، اور سعودی عرب کی مبارزت بھی۔
خود فیض صاحب فلسطیینوں کی حمایت اور یاسر عرفات کی دعوت پر سالہا سال بیروت میں رہے ، اور ایک اہم فلسطینی رسالے کی ادارت بھی کرتے رہے۔ وہ وہاں ایک شدید خونریز خانہ جنگی کے وقت بھی مقیم تھے۔ انہوں نہ وہاں کہیں اہم نظمیں بھی لکھیں۔ ان کی نظم ’دلِ من مسافرِ من‘، مجبور تارکِ وطن ، کے درد کی عکاسی کرتی ہے۔ چند سطریں ملاظہ کیجیئے:
’مرےدلمرےمسافر
ہوا پھر سے حکم صادر
کہ وطن بدر ہوں ہم تم
دیں گلی گلی صدایئں
کریں رخ نگر نگر کا
کہ سراغ کوئی پایئں
کسی یارِ نامہ بر کا
ہر اک اجنبی سے پوچھیں
جو پتہ تھا اپنے گھر کا
سرِ کوئے نا شنایاں
ہمیں دن سے رات کرنا
کبھی اس سے بات کرنا
کبھی ا±س سے بات کرنا
تمہیں کیا کہوں کہ کیا ہے
شبِ غم بری بلا ہے
ہمیں یہ بھی تھا غنیمت
جو کوئی شمار ہوتا
ہمیں کیا برا تھا مرنا
اگر ایک بارہوتا۔
اگر اس نظم کو ذہن میں رکھیں تو ہمیں یاد آئے گا کہ بیروت گزشتہ پچا س سال میں کم از کم آٹھ بار اجڑا اور بنا ہے۔ ہر بربادی کے بعد اہلِ بیروت اور لبنان بار بار یکجا ہوئے ہیں۔ اور مل کر اپنے برباد وطن کی تعمیر نو کرتے رہے ہیں۔
گزشتہ دنو ں بیرو ت کی بندرگا ہ کی قیا مت خیز بربادی بھی اسی تسلسل کی کڑی ہے۔ وہاں ہرلازم احتیاط کے خلاف اب سے سات سال پہلے تقریباً دو ہزار ٹن تباہ کن اور اور دھماکہ کن مادہ گوداموں میں رکھا گیا تھا۔ اور ہر تنبیہ کہ باوجود اس کی حفاظت کی کوئی حکومتی اور عسکری کوشش نہیں کی گئی۔ عسکری اداروں نے مختلف اپیلوں اور درخواستوں کو ر د کریا۔یہی نہیں بلکہ بندرگاہ کے حکام نے اس دھمالہ ک±ن مواد کے ساتھ ہی بڑی تعدا د میں آتش بازی کا موا بھی وہیں ڈھیر کر دیا۔ پھر یہ ہوا کہ ایک گودام کے دروازے کی ویلڈنگ کے دوران یہ بائیس سو ٹن بارودی مادہ ایک چنگاری کے نتیجہ میں بھک سے اڑگیا۔کہتے ہیں کہ یہ دھماکہ اب سے پچھتر سال پہلے ہیرو شیما پر ایٹم بم گرانے والے دھماکوں کے قریب ترین تھا۔
اس کے نتیجہ میں اب تک تقریباً دو سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔تین ہزار زخمی ہیں ، سینکڑوں لا پتہ ہیں، اور تقریبا تین ہزار عمارتیں برباد ہوئی ہیں۔ اناج کے گودام بربا د ہو گئے ہیں۔ اور کم از کم پندرہ ارب ڈالر لوگوں کی مدد کے لیئے درکار ہیں۔ حکومت کی بے اعتنائی ایسی ہے کہ وہاں لبنان کے حکمرانوں سے پہلے فرانس کے صدر دلجوئی کے لیے پہنچے۔
ہمیں فیض صاحب کے بیروت کے تعلق کی بنا پر ان ہی کی ایک اور نظم ” یہ ماتمِ وقت کی گھڑی ہے ‘ کی کچھ سطریں پھر یا د آگئیں:
’کسی مسافر کو
اب دماغِ سفر نہیں ہے
یہ وقت زنجیرِ روز و شب کی
کہیں سے ٹوٹی ہوئی کڑی ہے
یہ ماتم ِ وقت کی گھڑی ہے‘
۔۔
یہ جامہ ءروز و شب گزیدہ
مجھے یہ پیراہنِ دریدہ
عزیز بھی ہے پسند بھی ہے
کبھی یہ فرمانِ جوش و وحشت
کہ نوچ کر اس کو پھینک ڈالو
کبھی یہ اصرارِ حرفِ الفت
کہ چوم کر پھر گلے لگا لو‘
اب تک کی سطریں پڑھ کر آپ کو ہماری دلی کیفیت کا اندازہ ہوگیا گا۔ بس یہ خواہش ہے کہ ہم ، آپ، سب مل کر، اپنے اپنے شہروں ، اپنے ملکوں، اپنے اپنے شہریوں کو ان مسلسل برباویوں سے بچانے کی کوشش کر تے رہیں۔ جن کا کو کوئی انت نظر نہیں آتا۔ بیروت کی بندرگا ہ کی طرح ہمیں کراچی کی بندر گاہ بھی یاد آتی ہیں جہاں کی قبضہ گیری اور عسکری جبر ہمیں متنبہ کرتا ہے کہ کہیں ہمیں بھی بیروت کی جیسی اس مسلسل بربادی کا پھر سے سامنا کرنا نہ پڑے جس سے کراچی اور اہلِ کراچی بارہا گزرے ہیں۔
چلتے چلتے ہمیں فیض ہی کی نظم ’ایک نغمہ کربلائے بیروت کے لیئے ‘ یاد آگئی جو ہم لبنانی دوستوں کو پیش کرتے ہیں:
بیروت نگارِ بزم جہاں
ہر ویرں گھر، ہر ایک کھنڈر
ہمسایہءقصرِ دارا ہے
ہر غازی رشکِ اسکندر
ہر دختر، ہم سر ِ لیلیٰ ہے
یہ شہر ازل سے قائم ہے
یہ شہر ابد تک قائم ہے
408