دنیا بھر کی طرح کرونا وائرس نے پاکستان کو بھی متاثر کرنا شروع کردیا ہے۔ پاکستان میں کرونا وائرس کی تیزی سے بڑھتی ہوئی اموات اور متاثرین مریضوں کے مطابق نئی رپورٹ سامنے آرہی ہے۔ جو پاکستان کے لئے اس طرح تیزی سے اموات ہونا کسی خطرے سے کم نہیں ہیں۔ پہلے ہی پاکستان اپنے اندرونی مسائل کے معاملات میں بہت سی مشکلات کا سامنا کررہا ہے۔ جس کے سبب پاکستان کی موجودہ حکومت کسی ایک ادارے میں درست کام کرنے کے لئے مشکلات کا شکار ہے۔ اب کرونا وائرس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو بہت بدترین حالات سے دوچار ہونا ہوگا۔ پہلے کے مقابلے اور بے روزگاری بڑھ جائے گی اور اس کی سبب غربت کی شرح میں مزید اضافہ ہونے کے امکان ہیں۔ کرونا وائرس کی وجہ سے پاکستان میں لاک ڈاﺅن ہونے کی وجہ سے پاکستان کی ساٹھ فیصد غریب آبادی سخت پریشان ہے۔ ان ساٹھ فیصد لوگوں میں وہ لوگ شامل ہیں جو روز کماتے اور روز کھانے والے لوگ ہیں۔ لہذا اس وبا سے نمٹنے کے لئے پاکستان کو سخت چیلنج کا سامنا ہے۔ اس وبا نے خوف و دہشت، معاشی بحران، بھوک و افلاک کے واقعات کو جم دے دیا ہے۔ ان تمام صورت حال میں پاکستان کے ساتھ اور بھی ملک شامل ہیں، ایسا لگتا ہے اس وبا کو دیکھ کر کہ جیسے خدا تعالیٰ کی طرف سے سخت ناراضی کا اظہار ہو۔ پاکستان میں کرونا وائرس کے کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جس میں پاکستان کے دو بڑے شہر کراچی اور پنجاب جو آبادی اور معیشت کے لحاظ سے پاکستان کے اہم شہر اور صوبہ کہلاتے ہیں ان کو سب سے زیادہ خطرہ ہے۔ پاکستان میں کرونا وائرس سے اب تک متاثرین مریضوں کی تعداد 21 ہزار ہو گئی ہے جب کہ اموات پانچ سو کے قریب ہو چکی ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ 20 مئی تک ملک میں کرونا کیسز میں اضافہ کا خدشہ ہے۔ 15 سے 20 مئی تک کیس بڑھیں گے۔ جس کی وجہ سے اسپتالوں پر دباﺅ میں اضافہ ہو گا تاہم اگلے مہینے تک ہم کرونا سے لڑنے کے لئے مزید تیاری کر لیں گے۔ ہو سکتا ہے ایسی صورت پر لاک ڈاﺅن میں سختی کی جائے۔ لاک ڈاﺅن میں کمزور طبقے کو زیادہ پریشانی پیش آتی ہے جو حکومت کے لئے اہم اور بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ پاکستان میں غریب لوگ کورونا سے زیادہ بھوک سے مرنے کے خوف کے ڈر کا شکار ہیں اور یہ ہی وجہ ہے کہ غریب آدمی لاک ڈاﺅن کرنے کی اہمیت کو نہیں سمجھ رہا ہے۔ اپنے طور سے موجودہ حکومت بہتر سے بہتر اقدامات انجام دے رہی ہیں۔ وزیر اعظم کی جانب سے احساس پروگرام کے ذریعے مستحقین میں 44 ارب سے زائد کی رقم تقسیم کی گئی ہے جو کہ 7 دن میں 144 ارب 19 کروڑ روپے تقسیم کئے جا چکے ہیں۔ دوسری جانب عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈوس ادھانوم گھیبریوس نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں مزید اقدامات نہ کئے گئے تو جولائی کے وسط تک کرونا مریضوں کی تعداد دو لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق کرونا وائرس پاکستان کے 115 اضلاع تک پھیل چکا ہے اور صوبہ پنجاب اور سندھ میں متاثرہ مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس سے نظام صحت پر نمایاں دباﺅ آرہا ہے اس تمام تر صورت حال میں پاکستان کو سماجی و اقتصادی اور غذائی کمی سے پیدا ہونے والے اثرات پر توجہ دینی چاہئے جب کہ ایسے حالات میں پاکستان کو ہر وقت مزید مالی معاونت کی ضرورت ہے ان ہی تمام تر کوشش کے پیش نظر پاکستان میں کرونا وائرس کے خلاف فرنٹ لائن پر لڑنے والے ڈاکٹرز پیرا میڈیکل اسٹاف اور سیکیورٹی فورسز کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے سکھر میں دنیا کا سب سے بڑا سفید پرچم لہرایا گیا۔ کرونا کے خلاف جنگ لڑنے والے قومی ہیرو کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے 300 فٹ بلند 48 فٹ لمبا اور 56 فٹ چوڑا دنیا کا سب سے بڑا سفید پرچم لہرایا گیا۔
دوسری طرف پاکستان میں کرونا وائرس کی وجہ سے موجودہ حکومت کو رمضان المبارک میں مساجد عبادات بند کرنے پر لوگوں کی طرف سے شدید غصہ کا اظہار تھا جس کی وجہ سے حکومت اور علمائے اکرام کے درمیان رمضان المبارک میں تراویح، نمازوں اور اعتکاف کے حوالے سے مشروط اتفاق ہوا جس کے بعد 20 نکاتی متفقہ اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے اس کانفرنس میں ڈاکٹر عارف علوی کی سربراہی میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت چاروں صوبوں سے جید علماءو مشائخ اور مذہبی جماعتوں کے قائدین نے شرکت کی۔ جس میں رمضان المبارک میں کرونا وائرس کے پھیلاﺅ کو روکنے کے لئے موثر لائحہ عمل تیار کیا گیا۔ اجلاس میں وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق، چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز، مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا، صوبائی گورنر کے ساتھ ساتھ مفتی منیب الرحمن، مفتی تقی عثمانی، پیر امین الحسنات، علامہ راجا ناصر عباس، پیر چراغ الدین شاہ، علامہ عارف واحدی، مفتی گلزار نعیمی، علامہ امین شہیدی، ڈاکٹر ساجد الرحمن، پیر نقیب الرحمن سمیت دیگر علماءو مشائخ شریک ہوئے۔ علماءکے مشاورتی اجلاس کے بعد اعلامیہ میں 20 نکات پر اتفاق کیا گیا ہے جو نکات یہ ہیں۔ مساجد اور امام بارگاہوں میں قالین یا دریاں نہیں بچھائی جائیں گی۔ صاف فرش پر نماز پڑھی جائے گی اگر فرش ہو تو صاف چٹائی بچھائی جا سکتی ہے۔ جو لوگ گھر سے اپنی جائے نماز لا کر اس پر نماز پڑھنا چاہئیں وہ ایسا ضرور کریں، نماز سے بیشتر اور بعد میں مجمع لگانے سے گریز کیا جائے۔ جن مساجد اور امام بارگاہوں میں صحن موجود ہوں وہاں ہال کے اندر نہیں بلکہ صحن میں نماز پڑھائی جائے۔ 50 سال سے زائد عمر کے لوگ، نابالغ بچے اور کھانسی، نزلہ زکام وغیرہ کے مریض مساجد اور امام بارگاہوں میں نہ آئیں۔ مسجد اور امام بارگاہ کے احاطہ کے اندر نماز اور تراویح کا اہتمام کیا جائے۔ مسجد اور امام بارگاہ کے فرش کو صاف کرنے کے لئے پانی میں کلورین کا محلول بنا کر دھویا جائے۔ مسجد اور امام بارگاہ میں صف بندی کا اہتمام اس انداز سے کیا جائے کہ نمازیوں کے درمیان 6 فٹ کا فاصلہ رہے۔ مسجد امام بارگاہ انتظامیہ یا ذمہ دار افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے جو احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد کو یقینی بنا سکے۔ وضو گھر سے کرکے مسجد اور امام بارگاہ میں تشریف لائیں۔ صابن سے 20 سکینڈ ہاتھ دھو کر آئیں۔ لازم ہے کہ ماسک پہن کر مسجد اور امام بارگاہ میں تشریف لائیں۔ کسی سے ہاتھ نہیں ملائیں اور نہ بغل گیر ہوں۔ اپنے چہرے کو ہاتھ لگانے سے گریز کریں۔ گھر واپسی آنے کے بعد ہاتھ لازمی دھوئیں۔ موجودہ صورتحال میں بہتر یہ ہے کہ گھر پر ہی اعتکاف کیا جائے۔ کرونا وائرس سے جاں بحق مریضوں کی تدفین پر بھی ایک مسئلہ درپیش آیا۔ پاکستان میں کرونا وائرس سے جاں بحق مریضوں کی تدفین کا انکشاف ہوا جس کے بعد پاکستان اسٹیل نے 80 ایکڑ اراضی پر قائم قبرستان غیر قانونی قرار دے دیا۔ کراچی میں کرونا وائرس سے ہلاک افراد کی تدفین کے لئے قائم قبرستان سے متعلق تنازع کھڑا ہو گیا۔ جاں بحق مریضوں کی تدفین پاکستان اسٹیل ملز کی اراضی پر کی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان اسٹیل نے سندھ بورڈ آف ریونیو کمشنر کراچی، ڈپٹی کمشنر کو احتجاجی مراسلہ ارسال کیا۔ جس میں پاکستان اسٹیل کی ٹاﺅن شپ کی 80 ایکڑ اراضی پر قائم قبرستان غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔ رواں ماہ کے آغاز میں ہی کراچی کے علاقے بن قاسم میں ایک نیا قبرستان بنایا گیا یہ قبرستان 80 ایکڑ پر محیط تھا جہاں پہلے شخص کی تدفین بھی کردی گئی جو کرونا وائرس کا مریض تھا اور اس کی عمر 74 سال تھی۔ اس سے قبل کراچی میں کرونا وائرس سے جاں بحق ہونے والے افراد کی تدفین کے لئے 5 قبرستان مختص کئے گئے تھے۔ جن میں محمد شاہ، مواچھ گوٹھ، کورنگی، اورنگی ٹاﺅن، گلشن ضیاءاور سرجانی کے قبرستان شامل تھے۔ اس تنازع کا تا حال ابھی کوئی حل حکومت کی جانب سے سامنے نہیں آیا۔ تمام تر صورتحال کے معاملات پر حکومت اپنی پوری کوشش کررہی ہے ان کو با آسانی حل کیا جا سکے پر افسوس کی با تو یہ ہے کہ اس خطرناک وبا سے نمٹنے کے موقع پر بھی پاکستان میں کچھ سیاسی رہنما انسانیت سے نہیں بلکہ سیاست سے کام کررہے ہیں۔ پاکستان میں موجود کرپٹ نظام میں اس وباءسے پیش ہونے والے مسئلے نئی حکومت کے لئے ایک سخت امتحان ہے۔
413