ہم نہ جانے کب تک آنکھوں دیکھی مکھی نگلتے رہیں گے۔ صاف صاف کئے جانے والے کرائمز کو بھی ہم کھلی آنکھ سے دیکھنے اور عقل کی کسوٹی پر پرکھنے کے بجائے ہر بار کمیٹیاں اور جے آئی ٹی کے سپرد کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ راﺅ انوار نے ہزاروں نوجوانوں کے ماورائے عدالت قتل کئے اور آصف علی زرداری کا ”بہادر بچہ“ کہلایا۔ اسی طرح پنجاب پولیس مسلم لیگ نواز کی لے پالک رہی۔ کیسی بدنصیبی ہے کہ ہمارے ملک میں ملکی مشینری بھی کرپٹ افراد کے اشاروں پر ناچتی ہے جب کہ دنیا بھر میں گورنمنٹ اور سیاسی اداکار دو الگ الگ اکائیں ہیں۔ آج کے امریکہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو کس طرح غلط اقدامات سے روکا جارہا ہے۔ کیونکہ لوگوں کے ضمیر زندہ ہیں اور زندہ قومیں یونہی جیتی اور مرتی ہیں۔ ہمارے ملک میں جسے ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کا خوبصورت نام دیتے ہیں، اسلام کے نام پہ سیاہ دھبہ ہے۔ آج کہاں ہے دنیا کی بہترین خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی جو مجرموں کو قبروں سے باہر نکال لاتی ہے۔ آج ہماری اسٹیلبشمنٹ کو یہ معصوم اور بلکتے ہوئے بچے نظر نہیں آرہے۔ کیا یہ بھی آرمی پبلک اسکول کی طرز کا کرائم نہیں ہے۔ جس میں معصوم بچوں کو یتیم کردیا گیا۔ بچے بلکتے رہے، فریاد کرتے رہے، کیا یہ بچے کشمیری تھے اور ان کے سامنے ہندوستانی فوجی تھے۔ جنہوں نے سفاکی کے ساتھ ان کے والدین کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ ایف آئی آر میں نامعلوم افراد لکھنے والے یا لکھانے والے کو اب تک کیوں گرفتار نہیں کیا گیا؟ ان ظالم قانون کے رکھوالوں کو کسی عدالت کی ضرورت نہیں بلکہ انہیں ساہیوال کے لوگوں کے حوالہ کردیا جائے جو ان کے ساتھ جو سلوک کرنا چاہیں وہ کریں، ان پر بھوکے کتوں کو چھوڑا جائے جو انہیں بھنبھوڑ بھنبھوڑ کر لہولہان کریں اور بعدازاں انہیں ننگا کرکے ٹکٹکی پر لٹکایا جائے تاکہ سرد موسم ان کے اندر کی سردمہری کو باہر نکالے اور ایسے واقعات آئندہ نہ ہوں۔
نہ جانے ہم کس انصاف کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان، وزیر اعلیٰ پنجاب اور متعلقہ وزارت کو فوری انصاف کی جانب توجہ دینا چاہئے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں۔ وزیر اعظم کو راﺅ انوار کے بارے میں بھی واضح احکامات جاری کرنے چاہئیں اور پولیس کی ازسرنو تربیت کا اہتمام کرنا چاہئے۔ ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی ان معاملات میں سیاسی دکاندار چمکانے کے بجائے سنجیدگی اختیار کرنا چاہئے کہ یہ ہمارے وطن کے سپوت ہیں۔ ان معصوموں کی آہ لگ گئی تو نہ ملک بچے گا اور نہ فوج، یہ بندوقیں اور یہ اسلحہ یونہی دھرا رہ جائے گا۔ نہ جانے ہم کس زعم میں ہیں اور خدائے بزرگ و برتر کا صبر آزما رہے ہیں۔ یاد رہے کہ ”کن فیکون“ کی صدا آگئی تو پھر نہ ماڈل ٹاﺅن کے قاتل بچیں گے، نہ زینب کو بے لباس کرنے والے، نہ راﺅ انوار کو کہیں پناہ ملے گی اور نہ اسلامی جمہوریہ پاکستان جیسے پاک ملک کی دولت لوٹنے والے۔ ہاں یقیناً گیہوں کے ساتھ گھن بھی پسے گا۔ بچیں گے ہم بھی نہیں کہ یہ بھی ظلم کے خلاف آواز بلند نہیں کررہے۔ ہم سب ذمہ دار ہیں ان سب مظالم کے جو پاکستان کے عوام پر آج ٹوٹ رہے ہیں۔ یاد رکھیں پاکستانی ملک کے اندر ہیں یا ملک سے باہر، گھر سے باہر نکلیں اور ہر سطح پر آواز بلند کریں۔ اس ظلم کے خلاف، ان ظالموں کے خلاف کہ جو ہمارے پاک وطن کی بنیادوں کو معصوموں کے خون سے رنگ رہے ہیں۔ اگر آج پاک فوج اور آئی ایس آئی نے اپنی ذمہ داری نہ نبھائی تو پھر یاد رہے کہ کل ہم ماضی کی طرح ہندوﺅں اور سکھوں کی غلامی کررہے ہوں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے غضب کے نتیجہ میں کچھ بھی ممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم پر رحم اسی صورت میں کرے گا کہ جب ہم اپنے ملک کے عوام پر رحم کریں گے۔ یاد رہے کہ ہم آج اس ایسٹ انڈیا کمپنی سے بھی بدتر ہیں جس نے پاکستان کے عوام کو ریلوے ٹریک دیئے۔ اچھی زندگی دی۔
اے کاش کہ ہم برطانوی فوج کے غلام ہی رہتے تو آج پاک فوج کے زیر سایہ ہونے والے ان مظالم کا سامنا نہ کرتے۔
کہاں قاتل بدلتے ہیں، فقط چہرے بدلتے ہیں
عجب اپنا سفر ہے، فاصلے بھی ساتھ چلتے ہیں
وہ جس کی روشنی کچے گھروں تک بھی پہنچتی ہے
نہ وہ سورج نکلتا ہے نہ اپنے دن بدلتے ہیں
650