کسی سے بات کیجئے! 308

کچھ علاج ہی سہی!!

کبھی کبھی اتنی بری ساری خبروں میں کوئی چھوٹی سی اچھی خبر اس اطمینان کا باعث ہوتی ہے کہ کہیں کہیں انسانیت کی بچی کھچی سانسیں ابھی بھی جاری ہیں۔برائی پہ کڑھنا زندہ رہنے کی علامت ہے لیکن اس برائی کو ختم کرنے کیلئے اپنا آپ پیش کرنا چاہے کسی بھی طرح ، انسانیت اور معاشرے کی اصل اساس ہے اور ابھی شاید یہی وہ اساس ہے کہ ہم سکون سے سو پاتے ہیں حالانکہ جاگتے ہوئے ہر لمحہ بے سکونی میں گزرتا ہے
اور کیوں نہ گزرے جب چارسالہ بچی کے ساتھ تین دن مسلسل گینگ ریپ کی خبر پڑھ کے بھی ہم زندہ بچ جاتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ ہم اس درندگی کی ساری داستاں سن کے بھی کیسے سانس لے پاتے ہیں۔گھٹن اور تکلیف کی شدید کیفیات کے باوجود کچھ نہیں ہوتا۔ شاید دل اب پتھر کے ہوگئے ہیں زمانہ جاہلیت میں جب بیٹیوں کو زندہ دفن کیا جاتا تھا تو کم ازکم وہ تکلیف اس درندگی سے تو کم ہوتی ہوگی اور اب تو کوئی نبی بھی نہیں آئے گا کہ اس مردہ ، خون آلود معاشرے کا تزکیہ کرے۔ اس بار تو میں سوشل میڈیا پہ کچھ لکھ بھی نہ پائی کہ اب لفظ بھی اکثر دور بھاگتے ہیں۔ ایک ہی ظلم پہ بار بار چیخ کر۔جہاں کوئی فریاد سننے والا نہ ہو۔
معاشرے میں پھیلا ہوا ظلم کا یہ ناسور جانے کب بہتری کی طرف جائے مگر ایک فرض شناس وردی والے نے اپنے سارے محکمے کا سالہا سال کا گند دھو دیا۔ اور مجھے ہمیشہ یہی لگتا ہے کہ پاکستان جیسے لاقانونی معاشرے میں اگر سیاہ وردی والے اس محکمے کے سیاہ کرتوت ختم کیے جاسکیں تو بہتری کی کوئی امید تو نظر آسکتی ہے جہاں پہ محافظ ہر جرم میں خود ملوث ہوتے ہیں وہاں کسی اور سے کیا امید رکھی جاسکتی ہے۔ اور اس سب خود غرضی اور بفسانفسی میں ایک فرض شناس ملازم کی جرات کو سلام جس نے نہ صرف ڈیوٹی نبھائی بلکہ انسانیت کا سویا ہوا ضمیر بھی جگایا۔
بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں یہ ہمیشہ سے سنتے تھے مگر اس کی عملی شکل بھی دیکھ لی۔ اور کس ہمت اور بہادری سے باپ اور بیٹی نے اپنے محدود وسائل کے باوجود تاریخی کام کیا۔ ہمیں ایسے ہی ہیروز کی ضرورت ہے اور بیٹیوں کی ایسی ہی تربیت کی ضرورت ہے۔ میں ایک خیرسگالی والے گروپ میں پڑھ رہی تھی کہ لوگوں نے اس مظلوم بچی اور اس کی ماں کو کانٹیکٹ کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ ان کی مالی مدد کی جاسکے۔ جو کہ انتہائی ضروری ہے۔ ایسی بچیوں کی جسمانی، نفسیاتی اور ذہنی حالت کیا ہوتی ہوگی یہ صرف وہ اور ان کے گھر والے ہی جان سکتے ہیں۔ دوسرے صرف اندازہ ہی لگا سکتے ہیں۔
برائی کو برائی کہنا ، ماننا اور اس کے خلاف آواز اٹھانا بہت ضروری ہے اور اس سے بھی زیادہ ضروری ہر وہ پریکٹیکل کوشش ہے جو ہم کرسکتے ہیں تاکہ مرض سے زیادہ علاج سٹرانگ ہو تو اثرات زیادہ دیر پا ہوں کیونکہ معض کی تشخیص بار بارہونے کے باوجود ہم اسی روک تھام میں تو ہر طرح سے ناکام ہی ہیں کچھ علاج ہی سہی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں