سیاسی رسم 946

گداگری کی خوفناک حقیقت

دنیا میں پاکستان کا شمار سب سے زیادہ خیرات دینے والے مالک میں ہوتا ہے۔اور یہ خیرات مختلف صورتوں کی شکل میں دی جاتی ہے۔ پاکستان میں گداگری کی بڑتی ہوئی اہم وجہ غلط طریقے سے خیرات دینا ہے اگر خیرات اور زکوة اسلامی نقطہ نظر کے مطابق دی جائے تو معاشرے میں غریب طبقے کی شرح کم ہوتے نظر آئے گی۔ پاکستان کی عام عوام کا گداگری بڑھنے میں بھی بڑا ہاتھ ہے۔ جو کے بغیر جانے کچھ پیسے اللہ کا نام سن کر دیتی ہے۔ جو کے غلط ہے۔ پاکستان میں گداگری ایک پیشہ بلکہ مافیا کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ گلیوں,بازاروں, شاپنگ مالز اور چوراہوں, میں گدا گر مرد خواتین اور بچے نئے روپ اختیار کئے ہوئے ہاتھ پھیلائے ہوئے عام نظر آتے ہیں۔ حتی کہ پارکوں میں بھی ان کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے۔ 65 فیصد گداگر کام کرنے کے قابل ہوتے ہیں لیکن انھوں نے گداگری کو اپنا رکھا ہوتاہے۔ پیشہ ور بھکاری ہر بندے کو پکڑکر, راستہ روک کر پیسے وصول کرنے میں ماہرہوتے ہیں۔مقدس مہینوں میں خاص طور پر گداگروں کا سیزن بھی عروج پر آجاتاہے۔ ہر جگہ سے گداگری شہروں کا رخ کرتے ہیں۔
علوم عمرانیات کے ماہرین گداگری کو ایک ایسا سماجی رویہ قرار دیتے ہیں۔ جس کے تحت معاشرے کا محروم طبقہ بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دوسروں کی امداد کا محتاج ہو جاتا ہے یہ طبقہ امیر افراد سے براہ راست اشیاءخوردونوش ، لباس اور دیگر ضروریات کے لیے رقم کا مطالبہ شروع کر دیتا ہے۔ جب کے معاشیات کے ماہرین کہ رائے میں بھیک مانگنادرحقیقت سرمایہ دارانہ نظام کے منفی پہلوﺅں میں سے ایک ہے۔ اور کسی بھی سرمایہ دارانہ معاشرے کی جڑوں کوکمزور کرنے کا سبب ہے۔ اس نظام کے بعض پہلو معاشرے کے ایک طبقے کو غیر منافع بخش بنادیتے ہیں۔ گدا گری غربت اور محرومی سے پیدا ہونے والی ایک سر گرمی کا نام ہے۔ یہ دوسروں کے سامنے پیش کی جانے والی ایسی درخواست کا نام ہے۔ جسے پیش کرنے کا مقصد حصول رقم یا صدقات ہوتا ہے۔ اور جسے پیش کرنے والا یہ رقم ذہنی وجسمانی مسائل غربت وغیرہ کے سبب خود کمانے سے قاصر ہوتا ہے۔
پسماندگی اور غربت کے باعث دن اور رات لمحات میں ہر سمت بھیگ مانگتے نظر آتے ہیں ان میں بچوں کی تعداد انتہائی دردناک صورت اختیار کرتی جارہی ہے۔ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں ۔جو غریب اور بیروزگاری کے مارے افراد ہیں اس لیے بھوک کے مارے نچلے طبقے کے یہ لوگ پیشہ اختیار کر تے ہیں۔
بلکہ اپنے گینگ کے سربراہوں اور پولیس کو حصے کے طور پر بھتہ بھی ادا کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق 18 کروڑ نفوس پر مشتمل پاکستان کی 49 فیصد آبادی انتہائی غربت کی زندگی گزار رہی ہے جب کے حکومت کا کہنا ہے کہ وہ غریبوں کے لیے ہر سال 70 ارب روپے مختص کرتی ہے۔ پر پاکستان میں کریشن کے سبب یہ پیسہ غریب کو تقسیم نہیں ہوتاہے۔ گداگری نہ صرف ملک کے لیے بدنامی اور رسوائی کا سبب ہے بلکہ یہ بہت سے جرائم کو بھی جنم دیتی ہے۔ اخباروں میں ان کے مطابق اکثر آتا رہتا ہے۔ کہ ڈکیتی اور اس کے متعلق معلومات کا سبب یہ بنتے ہیں۔ کچھ خاص طور پر بھکارے گھروں میں مانگنے کے بہانے داخل ہو کر وارداتیں کرتے ہیں۔ اور گھروں کےمتعلق ایسی معلومات جرائم پیشہ افراد تک پہچانے کا سبب بھی ہیں۔
یہ گداگربچوں کے اغوااور انھیں اس پیشے سے وابستہ کرنے میں بھی اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ عرب ملکوں میں اغواشدہ بچوں کو اونتوں کی دوڑ کے لیے اسمگل کرنے میں بھی گداگروں کا بڑا ہاتھ ہے۔ ان پیشہ ور گداگروں کی وجہ سے ضروت مندوں کو بھی انکار حق نہیں ملتا۔ اور وہ لوگ جو حقیقی گداروں کو بھی اس نظر سے دیکھتے ہیں۔
عام حضرات کو چاہیے کہ وہ اس پیشہ سے وابستہ لوگوں کو درست سمت کی طرف لائے۔ اپنی خیرات وغیرہ دینے کے لیے اپنے غریزواقارب اور محلے میں ضرورت مندوں کو ڈھونڈ کر ان کی مدد کرے۔ ایسا ہماری اسلام اور شر یعت بھی حکم دیتی ہے۔
حکومت کو بھی یہ چاہیے کہ وہ اس لعنت سے ملک وقوم کو نجات دلانے کے لیے خصوصی اقدامات کریں اور ایسے گداگر جو کہ جعلی طور پر معزور بن کر ملک وقوم کو لوٹ رہے ہیں۔ میری نظر میں وہ جرائم پیشہ ہیں۔ اور ایک جرم کر رہے انکے خلاف باقاعدہ اور بڑے پیمانے پر آپریشن کریں۔
آج پاکستان کے ہر شہر کی سڑک ، ہر گلی ، ہر محلے ، ہر بازارموجودگی میں گداگروں کی بے شمار موجود ہے۔ جس میں خاص طور پر عورتوں اور بچوں کی تعداد موجود ہو گی۔ کراچی جو کے پاکستان کا معیشت اور رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر ہے۔ کراچی میں ان کی تعداد دوسرے شہروں کے مقابلے زیادہ ہوتی ہے اور یہ ہی اہم وجہ ہے کراچی میں سڑکوں اور دیگر جگہوں پر گندی کی۔ یہ شہر کی کسی بھی جگہ رہائش گاہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کی زیادہ تر تعداد گاﺅں یہاتوں سے تعلق رکھتی ہے۔ جو شہروں میں آکر اس پیشے سے منسلک ہو جاتی ہیں۔ ملک میں گداگری ان دیہاتی لوگوں کو ایک روزگار کی شکل میں دی جاتی ہے۔ ان کو باقاعدہ بتایا جاتا ہے ہے جھوٹ اور روپ بدل کر لوگوں کو کیسے پاگل بنانا ہے۔ یہ گدا گری شہر کے مختلف کونوں میں روپ بدل کر نمودار ہوتے ہیں۔ غور کیا جائے تو پاکستان کے ہر شہر کو یہ گداگری مثاتر کر رہی ہے۔ تقریبا آج پاکستان کے ہر شہر یہ گداگر موجود ہیں۔ ہر شہر کے سگنلز پر اور چھوٹے علاقوں میں چوکور ، چوارہوں پر بھیک مانگنے والوں کی تعداد جو روزبر روز بڑتھی ہو نظر آ رہی ہے۔ ان میں زیادہ تر وہ بچے ہیں جو دوسرے شہر سے آئے ہوئے ہوتے ہیں۔ اور یہ 100 فیصد ممکن ہیں یہ بچے اغوا کیے گیے ہو گے۔ جب یہ چند ماہ کے ہو گے جب کراچی جیسے بڑے شہر میں ایک ماہ کے بچوں کی اغوا کی وارداتیں پیش آتی ہیں۔ جو کے میڈیا میں نشر بھی کی گئی۔ تو چھوٹے شہر میں اس طرح کی وارداتیں نہ ہو یہ بات تسلیم کرنا مشکل ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق یہ معذور صرف بھیک منگوانے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ جو ایک انتہا افسوسناک امرہے۔ ملک میں بڑھتے ہوئی اس مسئلے نے سنگین نوعیت اختیار کرلی ہے۔ لیکن خوفناک بات تو یہ ہے۔ اس اہم ترین اور سنگین معاملے پر ہمارے حکام کی توجہ ہی نہیں۔ پاکستان میں منہگائی نے جو ظلم ڈھائے ہیں جس کی بڑھنے کی اہم وجہ کریشن بھی ہے۔ اس کا بھی سبب گدا گری بڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ان تمام چیزوں کے اثرات نسل درنسل دیکھے جائیں گے۔ اس بڑتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے غربت اور گداگری میں اضافہ کا دوسرانام ہے۔
آج پاکستان میں گدگری کا پیشہ ایک مافیا میں بدل چکا ہے۔ ایک پورا نیٹ ورک ان گداگروں کے پیچھے کام کر رہاہے۔ اور یہ کام پوری پلاننگ کے ساتھ ہے۔اس نیٹ ورک کے لوگ اپنے بندے مختلف جگہوں پہ کھڑےکرتے ہیں اور بھیک منگواتے ہیں ان وچ بھی مسلسل کیا جا رہا ہوتا ہے۔۔ اور ان کو یہ علاقے کی جگہ کرائے پہ دی جاتی ہیں۔ ہر بھکاری کی جگہ مخصوص ہوتی ہے۔ اس کی جگہ پہ دوسرابھکاری نہیں کھڑا ہو سکتا اور ساتھ ساتھ مانگنے کے اوقات کار بھی متیعن ہوتے ہیں۔ اس گداگرمافیا کے گروپ میں جو بھکاری سب سے زیادہ کماکر دیتا ہے۔ اس کو اتنے ہی اچھے علاقے میں تعینات کیا جاتا ہے۔
بھکاریوں میں خانہ بدوشوں کے علاوہ ، افغان، تاجک ،خسرے اور جرائم پیشہ بھی شامل ہیں۔ ایک علاقے کا گداگردوسرے علاقے میں جاکر نہیں مانگ سکتا جبکہ بھکاریوں کےاڈے لاکھوں روپے کے ٹھیکے پر بکتے ہیں۔ معاشی اور معاشرتی طور پر گداگری کی وجوہات کچھ بھی ہوں۔ گداگری ایک لعنت ہے۔ جو معاشرے کو پستی وذلت کا شکار کرتی ہے۔ جس سے غرت نفس اور محنت کی عظمت کے تمام خیالات ونظریات بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔گداگر چونکہ اپنی ظاہری حالت خراب رکھتے ہیں۔ اور صفائی ستھرائی کا اکثر اہتمام نہیں کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ خطرناک بیماریوں کا شکار ہو کر اپنے آس پاس بسنے والے دوسرے لوگوں کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ پاکستان میں اب ہی تک حکومت ان کے خلاف کام کرتے ناکام نظر آئی ہے۔ پاکستان میں ہر سال مختلف شہروں سے بچوں کو اغوا کرنا اور پر ان کو غلط کام کے لیے استعمال کرنا ایک بڑے خطرے کی نشانی ہے۔ ان تمام تر صورت حال پر نئی حکومت کو درست کام کرنے کی اہم ضرورت ہے۔ پاکستان کے نیچے طبقے کے بچوں کا مستقبل ان پیشہ وار لوگوں کر ہاتھ قتل ہو رہا ہے ان لوگوں کے حق میں آواز اٹھانے والا کوئی نہیں ہیں۔ یہ پیشہ وار لوگ بے خوف ان بچوں کی زندگی کھیل رہیں ہیں۔ ان بچوں کو تو معلوم بھی نہیں ہیں ان کے ساتھ ہو کیا رہا ہے وہ تو ان پیشہ وار لوگوں کے ہاتھ کا کھلونا بنے ہوئے ہیں۔ جس میں غلطی حکومت کے ساتھ معاشرے کے ان تمام لوگوں کی جو باآسانی کس بھی گداگر کو ماننے پر کچھ پیسے دیتے ہیں۔ اور ان کے یہ کچھ پیسے جو کے ثواب کی نیت سے دیے جاتے ہیں۔ یہ گداگر کے پیشہ کی جڑے مضبوط کرنے میں اہم کام انجام دے رہی ہیں۔ اگر ان گدا گر کو پیسے کی جگہ کھانا کھلا دیا جائے۔ اور وہ کچھ پیسے ایک جگہ جمع کر ے ان کو کچھ چیزیں دے دی جائیں۔ جو لوگ ان سے آسانی سے خرید سکیں۔ تو شاید گداگری کی شرح معاشرے میں کم ہو جائے اور بھی مثبت طریقے اپنا کر ان کو روکا جا سکتا ہے۔ جو کے اسلامی تعلیمات کی درست عکاسی مطابق ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں