عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 475

گھر کو آگ لگی گھر کے چراغ سے۔۔۔

پاکستانی سیاست میں جوتشیوں کی کوئی کمی نہیں جو موقع کی نزاکت سے اپنی بے پر کی اڑاتے رہتے ہیں اور شازونادر ہی ان کی کہی ہوئی کوئی پیشن گوئی دُرست ثابت ہوتی ہے لیکن ایک غیر متوقع جانب سے جب کچھ عرصہ قبل پاکستان کے مجھے ہوئے سیاسی پنڈتوں سے متعلق ”سسلین مافیا اور گاڈ فادر“ جیسے چونکا دینے والے ریمارکس آئے تو پاکستانی سیاست میں ایک ہلچل و طوفان بالخصوص اور صحافت میں بالعموم مچ گیا۔ اور اس طرح کے ریمارکس کو جمہوریت اور سیاست کے لئے زہر قاتل قرار دیا اور ریمارکس دینے والوں کو ان کے اوقات میں رہنے کے مشورے دیئے گئے غرض اس وقت اس طرح کے ریمارکس پر شور و غوغا کرکے آسمان کو سر پر اٹھانے کی کوشش کی گئی حالانکہ وہ ریمارکس نہ صرف حقیقت پر مبنی تھے بلکہ وہ پوری طرح سے زمینی حقیقت سے مطابقت بھی رکھتے تھے۔ وہ ریمارکس ایک طرح سے کڑوا سچ تھا اور سچ کب کسی سے برداشت ہوتا ہے ہم نے اپنے اس کالم کی مناسبت سے ان ریمارکس کو کسی جوتشی کی پیشن گوئی سے بھی منصوب کرلیا ہے۔ ان دونوں ریمارکس ”سسلین مافیا اور گاڈ فادر“ کو آپ کسی بھی زاویے سے دیکھیں اور اس کے بعد ان ریمارکس کو مدنظر رکھتے ہوئے احتساب کورٹ کے سابق جج ارشد ملک کی لیک کی گئی ویڈیو اور ان کے حلفیہ بیان میں بتائی گئی روئیداد کا گہرائی سے جائزہ لیں تو آپ پر ان دونوں ریمارکس سسلین مافیا اور گاڈ فادر کی حقیقت واضح ہو جائے گی اور جو پیشن گوئی پاکستان کے ان قد آور سیاسی پنڈتوں کے بارے میں کی گئی تھی وہ حرف بہ حرف دُرست ثابت ہوئی ہے۔ اس ویڈیو لیک کی وجہ سے تو یہ سیاستدان ”ڈان“ ثابت ہو گئے کہ کس طرح سے ایک حاضر سروس جج جو جس مجرم کا کیس سن رہا ہے، خود اس کے سامنے اس کے اڈے پر انہیں قاتلوں کے ذریعے مجرم بنا کر پیش کیا گیا اور پوچھا گیا کہ تمہاری ہمت کیسے ہوئی ڈان کو سزا دینے کی۔۔۔؟ اور اس کے بعد انہیں خریدنے کی ہر طرح سے کوشش کی گئی، لالچ بھی دیا گیا اور ڈرایا اور دھمکایا بھی گیا۔ یہی وہ طور طریقے ہیں جو سسلین مافیا اور گاڈ فادر کیا کرتے تھے۔
سیاسی مکافات عمل اس برق رفتاری سے ہو گا اس کو مجھے اندازہ نہیں تھا کہ سسلین مافیا اور گاڈ فادر ثابت کرنے والے تمام تر شواہد وہیں گردش کریں گے جو ان ریمارکس کے خالق ہیں۔ درست ہی کسی نے کہا ہے کہ ”گیڈر کی جب موت آتی ہے تو وہ شہر کا رُخ کرتا ہے“۔ اس لئے جس کسی نے بھی ویڈیو لیک کا یہ فسانہ چھیڑا ہے اس سے عدلیہ کو کم اور گاڈ فادر اور سسلین مافیا کو زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ ایسا کرنے والے نے نادان دوست ہونے کا ثبوت دیا ہے اور جو لوگ ویڈیو لیک کے بعد اس کے ذمہ داروں کو تھپکیاں دے رہے ہیں اور واہ واہ کرکے ان کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں وہ دراصل انہیں بندگلی کا مسافر بنا رہے ہیں۔ ایسا کرنے میں ان کے اشاروں پر دم ہلانے والے ٹی وی اینکرز اور صحافی خاص طور سے شامل ہیں۔ ویڈیو لیکس کا معاملہ ملک کے سب سے بڑی عدالت میں پہنچ چکا ہے اور اس پر سماعت بھی شروع ہو چکی ہے اور اب اس ویڈیو کی حقیقت بھی سامنے آ جائے گی کہ اس کی اصلیت کیا ہے؟ اس کی تیاری میں کن کن لوگوں نے اور کن مقامات نے حصہ لیا یہ ایک بہت بڑا پینڈورہ بکس ہے اب اس سے جڑے اور بہت سارے خفیہ اسکینڈل بھی سامنے آجائیں گے جب کہ جو کردار بیرون ملک فرار ہو گئے ہیں ضرورت پڑنے پر انہیں بھی عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جو لوگ اس ویڈیو لیکس کے بعد اس خوش فہمی میں مبتلا ہو چکے ہیں کہ جج کی تبدیلی سے ان کے کئے گئے فیصلے متاثر ہوں گے اور جیلوں کے مقفل دروازے ڈان کے لئے کھول دیئے جائیں گے وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ ایسا کچھ نہیں ہونے جارہا بلکہ اس ویڈیو لیکس کے بعد بہت سارے دوسرے لوگ ضرور مشکل میں آجائیں گے جس کے اثرات ان لوگوں کے آئے روز کی بلاوجہ کی بیان بازیاں ہیں جن میں بعض معروف اینکرز بھی شامل ہیں جو دیوار سے سر تکرا کر خود کو شہیدوں کی فہرست میں شامل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ خاموشی کے ساتھ ”تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو“ کی پالیسی پر عمل کرے۔ ویڈیو لیکس کا سارا معاملہ ہی عدلیہ کا ہے اس لئے وہ قانون اور آئین کے مطابق عدلیہ کے معاون کا کردار ادا کرے۔ عدلیہ جو حکم دیتی ہے بلاکسی چوں چراں کے اس پر الہ دین کے جن کی طرح سے عمل کرے اس لئے کہ جب کوئی اپنی موت آپ ہی مر رہا ہے تو اس پر گولی ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ حکومت کو چاہئے کہ وہ جس طرح کا سرپرائز چیئرمین سینٹ کے خلاف لائی جانے والی تحریک عدم اعتماد کی صورت میں اپوزیشن کو دینا چاہتی ہے وہ اپنی توجہ اس پر صرف کریں اور انہیں جمہوریت کے طور طریقے اس کے رسم و رواج خود ان کی زبان میں سمجھانے کی کوشش کریں اور وہی حربے استعمال کریں جو اپوزیشن کا خاصہ رہا ہے اور ان پر یہ ثابت کریں، شطرنج کھیلنا اور سیاست کرنا صرف اپوزیشن اور میڈیا ہی کا کام نہیں، عمران خان اور ان کی پارٹی بھی یہ کام جانتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عمران خان اپنے کانوں کی صفائی کریں تاکہ انہیں غریبوں کی وہ آہ و بکاہ بھی سننے کو ملے جو اس بڑھتی ہوئی مہنگائی نے پیدا کی ہے۔ ملک کے پسے ہوئے لوگوں کو ایک خوبصورت ”کل“ سے زیادہ گزرے ہوئے اس بدترین ”آج“ سے نجات چاہئے۔ عوام ضروریات زندگی کی اشیاءمیں فوری ریلیف چاہتے ہیں، اس لئے وزیر اعظم عمران خان اپنی توجہ ملک کے نوے فیصد مڈل اور غریب کلاس پر بھی صرف کریں۔ اس مہنگائی کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کے ساتھ ساتھ مہنگائی کے شکار لوگوں کے ازالے کے لئے بھی کوئی اقدامات کریں۔ سب اچھا ہے کی روایتی حکمرانی کے ماحول سے انہیں باہر نکلنا چاہئے اور خود بھیس بدل کر بازاروں کا دورہ کریں تو ان پر ان کے حکمرانی کی اصلیت واضح ہو جائے گی۔ تبدیلی قانون کی حکمرانی سے ہی ممکن ہے۔ اس لئے قانون کا ڈنڈا خودساختہ مہنگائی کرنے والوں پر بھی چلنا چاہئے، جنہوں نے غریبوں کی زندگی کو جہنم بنا کر جیتے جی مار دیا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں