بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 236

ہمیں اپنا رویہ بدلنا ہوگا

وزیر اعظم کے مشیر خاص اور حکومتی ترجمان گزشتہ دنوں ٹورانٹو کے دورے پر آئے تو کئی ایک تقاریب میں شرکت کی اور بڑے دبنگ انداز میں عمران خان اور موجودہ حکومت کے موقف کو پیش کیا۔ انہوں نے حکومت کا بھرپور دفاع کیا اور ہر شعبہ میں ترقی اور مثبت پیش رفت کی نوید سنائی۔ انہوں نے بتایا کہ موجودہ حکومت سے نہ جانے کیوں صرف تین سالوں بعد حالات کو ٹھیک نہ کرنے کی بات کی جاتی ہے جب کہ گزشتہ 60 سالوں کے نقصانات کا تاوان بھی موجودہ حکومت کو ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سابقہ حکومتوں کے، لیے گئے قرضوں کو بھگتانے کے لئے نئے قرضوں کو لینا وقت کی اہم ضرورت تھی اور حکومت آج تک اسی گرداب سے باہر نہیں آسکی ہے۔
اب کوئی شہباز گل سے یہ پوچھے کہ جناب آپ تو 90 روز میں ملک میں بہتری لانے کی بات کرتے تھے، E-Management کے ذریعہ اور جادو کی چھڑی گھما کر ملک کو مشکلات سے نکالنے کی بات کرتے تھے۔ اس وقت تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ آپ کے پاس بوتل والا جن ہے جسے باہر نکال کر آپ پاکستان کے تمام مسائل حل کرلیں گے یا پھر آپ کے پاس الہ دین کا چراغ ہے کہ جسے رگڑ کر نمودار ہونے والے دیو سے معاشیات ٹھیک کردیں گے مگر کنٹینر پر کہی گئی باتیں آج وزیر اعظم عمران خان کے لئے مشکلات کھڑی کررہی ہیں، کئے گئے بلند و بانگ دعویٰ جھوٹے ثابت ہوئے اور حکومت نے کسی ایک بات پر بھی عمل نہیں کیا یا کرنے نہیں دیا گیا۔ یہی عمران خان تھے جنہوں نے عوام کو سسٹم سے بغاوت کا حکم دیا۔ لوگوں کو اکسایا کہ نہ ٹیکس دو نہ بجلی اور گیس کے بل۔ مہنگائی، ڈالر اوپر جانے پر حکمرانوں کو چور کہا اور آج تک وہی راگ الاپ رہے ہیں۔ اپنی گزشتہ کارکردگی کے بارے میں عوام کو بتانے کے بجائے اب تک تمام ناکامیوں کا ذمہ دار سابقہ حکومت کو ٹھہرا رہے ہیں مگر اب عوام کی سمجھ میں آرہا ہے کہ ان کے ساتھ ایک نیا ڈرامہ ہو چکا ہے اور اب دوبارہ پی ٹی آئی کو حکومت میں لانا خودکشی کے مترادف ہوگا۔ عوام بیچ منجدھار میں پھنس چکی ہے اب نہ گزشتہ سربراہوں پر اعتماد رہا، نہ موجودہ حکومت پر اور اب لوگ فوج سے بھی باغی نظر آتے ہیں کہ یہ سب فوج کا کیا دھرا ہے۔ یوں فوج بھی اس بار اپنا وقار کھوتی دکھائے دے رہی ہے اور اب تجزیہ نگار کھل کر فوج کے خلاف بھی بات کررہے ہیں۔ فوج کی رہی سہی عزت ہمارے محترم وزیر اعظم نے داﺅ پر لگا دی ہے۔
دوسری جانب پاکستان کی مذہبی تنظیمیں انگلی کے اشاروں پر ناچنا شروع ہو گئی ہیں۔ ہمارے خفیہ دوستوں نے اپنی بی ٹیم کو میدان میں اتار دیا ہے تاکہ حکومت کو نکیل ڈالی جا سکے اور انہیں ڈرا دھمکا اور بہلا پھسلا کر ایک صفحہ پر لایا جائے کیونکہ موجودہ حالات میں حکومت اور فوجی قیادت کے درمیان شروع ہونے والی ٹینشن نہ صرف ملک کو بلکہ اداروں کو بھی خطرناک صورتحال سے دوچار کرسکتی ہے چنانچہ وقت کی اہم ضرورت یہی ہے کہ ہمیں اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا۔ اپنی روش تبدیل کرنی ہوگی اور اس بار پھر ہم نے ہٹ دھرمی دکھائی تو پھر ”بلڈی سویلین“ کوئی بھی ایسا قدم اٹھا سکتے ہیں کہ جو ملک کی سلامتی کو خطرہ میں ڈال دے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں