بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 145

یہ گھر میرا گلشن ہے، گلشن کا خدا حافظ

ایک بار کسی دانا شخص سے پاکستان کے مستقبل پر بات ہو رہی تھی۔ جن کا کہنا تھا کہ پاکستان سے پاکستان کی صنعت، زراعت، معدنیات اور بندرگاہیں چھین کر پاکستان کو Consumer اسٹیٹ بنا دیا جائے گا۔ جہاں ہر چیز باہر سے منگوا کر عوام کی ضروریات کو پورا کیا جائے گا اور آج کے حالات کو دیکھ کر اُس دانا کی کہی ہوئی بات پر آمنا و صدقنا کہنے کو دل کرتا ہے کہ ملک کی معیشت جس دوراہے پر کھڑی ہے وہاں سے واپسی ناممکن دکھائی دے رہی ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط جان لیوا ہیں، سعودی عرب جیسے دوستوں نے مدد سے ہاتھ کھینچ لیا ہے، ہمارے حکمران اپنی جھولی پھیلائے دُنیا بھر میں بھیک مانگتے پھر رہے ہیں۔ ہمارے نئے چیف آف آرمی اسٹاف بھی بیرون ملکوں کے دورہ پر ہیں اور پاکستان کے لئے امداد اکھٹا کررہے ہیں۔ ایک ایسے ایٹمی ملک کے حکمران اور جنرل جو قدرت کی نعمتوں سے مالا مال ہے۔ آج چند چور اچکوں کے ہاتھوں لٹ لٹ کر آج ایک ایسی طوائف بن چکے ہیں جس کے پاس گاہکوں نے بھی آنا چھوڑ دیا ہے۔ ہم امریکہ کی شکنجے میں بری طرح جکڑ چکے ہیں اور اُن گناہوں کا کفارہ ادا کررہے ہیں جو ہم نے ماضی میں کئے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں نے تو اپنے محلات نہ صرف ملک میں بلکہ ملک سے باہر بھی بنا رکھے ہیں۔ انہیں تو صرف ایک چارٹر طیارہ چاہئے جوکسی بھی وقت انہیں لے کر بیرون ملک روانہ ہو جائے گا اور بے یارو مددگار عوام اپنے غلط فیصلوں کا خمیازہ تاعمر بھگتی رہے گی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ عمران خان کی حکومت میں بھی کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہو سکے مگر ایک چیز کا کریڈٹ عمران خان کو ضرور دیا جائے گا کہ اُس نے ملک کے اصل دشمنوں کے چہروں سے نقاب اُتار دیا۔ اب یہ عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ موجودہ حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے گھروں سے باہر نکلیں اور اس کرپٹ سسٹم کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں اور یہ جان لیں کہ یہی وقت ہے کہ اس ملک کو چوروں اور لٹیروں سے آزاد کروا کر اپنی نئی نسل کے مستقبل کو محفوظ بنایا جائے وگرنہ یاد رکھیں! اگر یہ موقع بھی گنوا دیا تو پھر ساری زندگی کے لئے پاکستانیوں کی نئی نسل آصف زرداری اور نواز شریف کے بعد مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کی غلامی کرتی رہے گی اور ملک یونہی چند خانداندوں کے ہاتھوں میں یرغمال بنا رہے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں