عمران خان توجہ فرمائیے! 208

آئیے افریقہ کی سیر کریں

ایئرپورٹ سے ہم لوگ گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ فاصلہ تقریباً دس بارہ کلو میٹر کا ہوگا۔ ایئرپورٹ پر اترتے ہی آپ کو افریقہ کا احساس ہوتا ہے، ہر طرف مقامی سیاہ لوگوں کی بہتات نظر آتی ہے اور ایئرپورٹ کی دیواروں پر بھی اسی نوعیت کے ایڈورٹائزنگ بورڈ آویزاں نظر آتے ہیں۔ لیکن یہ لوگ دیگر افریقین اور کریبین ممالک سے بہت اچھے ہیں۔ جب میں 2016ءکے آخر میں یہاں سے روانہ ہوا تھا اس وقت ایئرپورٹ سے شہر تک سنگل سڑک تھی جو کہ اب ڈبل روڈ میں تبدیل ہو چکی ہے جو کہ خوش آئند ہے۔
زمبابوے جس کا دارالحکومت ہرارے ہے ملک کی کل آبادی ڈیڑھ کروڑ نفوس پر مشتمل ہے، بڑے شہروں میں بلوائیو Bulaweyo، مطارے Mutare، کڈوما Kadoma اور کوے کوے Kwe Kwe ہیں۔ زمبابوے لینڈ لاکڈ کنٹری ہے یہاں زیادہ تر اشیا خورونوش امپورٹ ہوتی ہیں اس کے ہمسائیگی میں ساﺅتھ افریقہ، موزمبیق، زمبیا اور بوٹسوانا ہیں۔ یہ جنوبی افریقہ کا اہم ملک ہے۔ یہاں پاکستان کا ہائی کمشنر بھی بیٹھتا ہے۔ پاکستان اور زمبابوے کے نہ صرف سفارتی تعلقات ہیں بلکہ فوجی تعلقات بھی ہیں۔ عرصہ دراز سے پاکستان ایئرفورس کے آفیسرز یہاں تعینات ہیں اور مقامی پائیلٹ حضرات کو تربیت دیتے ہیں۔ زمبابوے کے قومی دنوں پر فلائی پاسٹ بھی ہمارے پائیلٹ ہی کرتے ہیں، کسی زمانے میں زمبابوے یونیورسٹی میں ہمارے پروفیسرز بھی درس و تدریس دیا کرتے تھے۔
زمبابوے میں ہمارے ڈاکٹرز خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ جو کہ پچھلے تین دہائیوں سے یہاں رہائش پذیر ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے بہت سارے دوست مختلف قسم کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ جن میں کپڑا، آٹا اور مکئی کی ملز، موبائل فون اور ٹریڈنگ کرتے ہیں، ہمارے پاکستانیوں کیکل تعداد تقریباً ایک ہزار کے قریب ہے جن میں سے بیشتر کاروبار سے منسلک ہیں۔ مزدوری کے لئے یہ ملک سازگار نہیں ہے۔
مقامی لوگوں سے مسلسل اور گہرا تعلق وابستہ کرنے کے لئے پاکستان زمبابوے فرینڈشپ ایسوسی ایشن بھی کام کررہی ہے جو کہ دونوں ممالک کے درمیان پل کا کام کرتی ہے یہ ایسوسی ایشن یہاں مقیم پاکستانیوں کو مختلف قسم کے سرکاری معاملات میں مدد بہم پہنچاتے ہیں، لوگوں کی تفریح کے لئے تہواروں پر پارٹیوں کا اہتمام کرتے ہیں، یعنی اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ یہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مضبوط رسی سے بندھے ہوئے ہیں۔
گھر تک پہنچتے پہنچتے یہ تمام باتیں میرے ذہن و قلب میں گردش کررہی تھیں۔ تصدق بٹ صاحب نے میرے لئے آرام دہ رہائش کا بندوبست کر رکھا ہے اور آتے ہی مجھے گاری کی چابی بھی تھما دی گئی ہے کہ میں جب اور جہاں چاہوں مرضی کے ساتھ باہر جا سکوں۔ میرے پاس یہاں کا ڈرائیورز لائسنس پہلے سے ہی موجود ہے۔ میں یہاں آنے کے لئے بے تاب تھا کیوں کہ میرے جتنے دوست احباب یہاں ہیں شاید پاکستان اور کینیڈا میں بھی نہیں ہیں۔ یہاں پر مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے اور ہر شخص بے پناہ عزت اور محبت دیتا ہے۔
مجھے بتا دیا گیا تھا کہ رات کا کھانا ہم مصدق بٹ صاحب کے ہاں تناول کریں گے، یہ تصدق بٹ صاحب کے چھوٹے بھائی ہیں۔ کچھ آرام کرنے کے بعد فریش ہو کر ہم کھانے کے لئے روانہ ہوئے، گلیوں میں لوگوں اور گاڑیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی اور پھر سونے پہ سہاگہ کسی فنی خرابی کے باعث بجلی بھی پچھلے دو دن سے بند تھی۔ فضا اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ لیکن اب زیادہ تر لوگوں نے گھروں میں سولر سسٹم لگوا لئے ہیں اس وجہ سے لوڈ شیڈنگ کا احساس نہیں ہوتا اور پھر یہاں کا موسم بہت خوش گوار ہوتا ہے۔ دن میں قابل برداشت گرمی ہوتی ہے لیکن شام ہوتےہی بلکی ٹھنڈ ہو جاتی ہے۔ زمبابوے کا موسم انتہائی خوبصورت ہے یہ آپ کو سحر میں جکڑ لیتا ہے اس کی ہواﺅں، فضاﺅں اور مٹی میں بھینی بھینی سی معطر خوشبو رچی بسی ہے۔ زمبابوے کی مٹی بڑی زرخیز اور برکت والی ہے، پاکستان سے آئے اکثریت نے کاروبار میں بے حد ترقی کی ہے جو کہ ایک خوش کن حقیقت ہے۔ ہمارے لوگ مقامی لوگوں کو بھی مدد کرتےہیں یہاں کی اکثریتی آبادی غریب لوگوں پر مشتمل ہے سب سے خوبصورت اور خوش آئند بات خصوصی طور پر ہماری خواتین کے لئے یہ ہے کہ یہاں گھروں میں کام کرنے کے لئے میڈز مل جاتی ہیں اور ابھی تک میں جتنے بھی گھروں میں گیا ہوں وہاں کی میڈز کے ہاتھوں کی چائے سے لے کر کھانوں اور سوئیٹ ڈش تک بڑی مزیدار بناتی ہیں۔ ڈرائیور، گارڈنر اور سکیورٹی گارڈز بڑی آسانی سے تھوڑے معاوضے پر مل جاتے ہیں۔ غرض یہ کہ یہاں لوگ زندگی کا صحیح لطف اٹھا رہے ہیں۔ بڑے بڑے گھر ہیں۔ بڑی بڑی گاڑیاں ہیں، کھیلوں کے میدان میں بھی ہمارے لڑکے نمایاں کردار ادا کررہے ہیں۔ ان میں زمبابوے کی قومی کرکٹ ٹیم کے نمایاں آل راﺅنڈر سکندر رضا کا تعلق بھی پاکستان سے ہے اس کے علاوہ یہاں اور بھی لڑکے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل رہے ہیں۔
کھانے پر تیس کے قریب لوگوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ جن میں اکثریت میرے جاننے والے تھے، بڑا پرتکلف کھانا تھا سب نے بڑے مزے لے کر کھایا ایک اور مزیداری کی بات یہ ہے کہ تمام کھانا گھر پر ہی تیار کیا گیا تھا اور یہاں آن لائن کھانا منگوانے کا رواج نہیں ہے کیوں کہ ایسے ریسٹورنٹ ہی نہیں ہیں کہ جن سے آپ اپنی پسند کا کھانا منگوا سکیں، چند ایک ریسٹورنٹ ہیں جو کہ محدود پیمانے پر سروس مہیا کرتے ہیں، یہاں پاکستانیوں کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے ایسے ریستورانوں کو چلانا مشکل ہو جاتا ہے، تو خواتین گھروں پر ہی مختلف پکوان تیار کرتی ہیں اور مقامی میڈز ان کی معاونت کرتی ہیں۔
رات دس بجے کھانے کی یہ محفل ختم ہوئی اور ہم واپس اپنی آرام گاہ پہنچ گئے چونکہ میں کافی لمبا سفر کرکے آیا تھا اس لئے مجھے بھی نیند کے جھٹکے آرہے تھے، لہذا دوستوں سے خدا حافظ کہہ کر سونے چلے گئے۔ اس طرح پہلے دن کا اختتام ہوا۔
(باقی آئندہ ہفتہ)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں