بہت دیر کی مہرباں آتے آتے، حسن عسکری بھائی کو صدارتی تمغہءحسنِ کارکردگی مبارک 78

آن لائن کار سروس چلانے والوں کے مسائل

کریم، اوبر اور ان ڈرائیو آن لائن کار کمپنیاں پاکستان میں خاصی مقبول ہیں۔ ان میں ’ان ڈرائیو‘ کا کرایہ بہت مناسب ہے۔ میں خود کریم اور ان ڈرائیو کی موٹر سائیکل اور کار میں راولپنڈی، سیالکوٹ، لاہور اور کراچی میں سفر کرتا ہوں۔ کبھی پسنجر اور کیپٹن/ڈرائیور میں اونچ نیچ کے واقعات بھی منظر پر آ جاتے ہیں۔ لیکن خود ان کمپنیوں کے لئے اپنی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں چلانے والوں کو کیا مسائل درپیش ہیں اس پر کبھی غور نہیں کیا تھا۔
پچھلے ہفتہ میں نے لاہور کے بحریہ ٹا¶ن سے اسلامیہ پارک سخت سردی میں ان ڈرائیو کی کار میں سفر کیا۔ بقول مسرور انور ’رسم دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے دستور بھی ہے۔ ‘ سوچا کہ گاڑی کے کیپٹن سے ان کے مسائل جانے جائیں۔ گفتگو کے دوران انہوں نے بتایا: ”ان ڈرائیو روس کی کمپنی ہے۔ ہمیں انتظامیہ سے رابطے کے لئے بہت ہی دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اکثر تو صرف ای میل کے ذریعے ہی رابطہ ہوتا ہے“۔
کمپنی کے کمیشن کاٹنے سے متعلق انہوں نے انکشاف کیا : ”جو رائیڈ ہم نے نہیں کی ہوتی اس کا بھی کمیشن کاٹ لیا جاتا ہے۔ اگر کوئی کسٹمر کسی بھی وجہ سے اپنی رائیڈ منسوخ کردے تو ہمیں لوکیشن پر لازما جا کر ہی رائیڈ منسوخ کرنا ہوتی ہے۔ ایسا نہ کرنے پر کبھی کبھار ہمارا کمیشن کاٹ لیا جاتا ہے۔ کمپنی کمیشن ناقابل واپسی ہوتا ہے۔ ہمارے لئے مشکل یہ ہے کہ اگر رائیڈ منسوخ کرنے والے کی لوکیشن پر جاتے ہیں تو پٹرول لگتا ہے۔ اس نقصان کی تلافی کمپنی نہیں کرتی“۔
ان ڈرائیو کمپنی میں کسی بھی کسٹمر کی آئی ڈی کیسے بنائی جاتی ہے اس کے بارے میں مجھے بتایا گیا: ”کسٹمر کی آئی ڈی صرف اس کی سم کے کوڈ پر، بغیر تصدیق کے بنا دی جاتی ہے۔ ہمیں کچھ پتا نہیں ہوتا کہ متوقع کسٹمر کون ہے؟ خدا نخواستہ کوئی مسئلہ پیش آجائے، گاڑی چھین لی جائے تو کمپنی ہمارا ساتھ نہیں دیتی۔ ہم سارا دن کمپنی کے لئے گاڑی چلاتے ہیں لیکن حادثے کی صورت میں ہمیں کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا جاتا اور گاڑی کی انشورنس بھی ہماری ہی ذمہ داری مانی جاتی ہے“۔
پیسنجروں کے برتا¶ پر پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا: ”بعض پسنجر ہم سے ایسا سلوک کرتے ہیں کہ جیسے یہ ان کی ذاتی گاڑی ہے اور ہم ان کے ملازم! وہ ہمیں ایسی تنگ گلیوں میں بھی جانے کا کہتے ہیں جہاں بڑی گاڑی کا صحیح سلامت جانا دشوار ہوتا ہے۔ پھر گاڑیوں اور ان کی دیکھ بھال مہنگی ہوتی جا رہی ہے لیکن ہمارا کرایہ اتنا کم ہے گویا رکشے میں جا رہے ہیں۔ اس وقت اگر آپ کمیشن کاٹ کر ہمارے کرایوں کا تجزیہ کریں تو بعض اوقات ہم رکشے سے بھی زیادہ سستے ہوتے ہیں۔ حکومت اور ہم سے متعلق ادارے اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں سوچتے“۔
انہوں نے ایک قابل عمل تجویز دی: ”ملکی سطح پر کوئی ایسی ایپ ہو نا چاہیے جہاں کسٹمر اور کیپٹن دونوں رجسٹرڈ ہوں۔ اس طرح ہیرا پھیری اور چکر بازی کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔ باہر کی کمپنیاں ہمارے ملک میں آ کر منافع بٹور رہی ہیں وہ پاکستان کو ملنا چاہیے۔ بس ایک سافٹ وئیر بنانے کی تو بات ہے۔ اسی سے تو گلشن کا کاروبار چل رہا ہے“۔
اپنی دن رات کے اس کام کے تاریک پہلو کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ”ہمارا کام بہت خطرناک ہے! ہر طرح کے افراد سے واسطہ پڑتا ہے۔ ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جن کے ساتھ ہم اپنے آپ کو حد درجے غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ اس کی وجہ سے کئی دفعہ ہمارے ساتھ ایسا ہوا کہ کسٹمر بیٹھا اور پورا کرایہ نہیں دیا۔ البتہ کمپنی نے اپنا کمیشن ہم سے ضرور کاٹ لیا۔ یہ بھی اپنی جگہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ اگر یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا تو ہم ان کمپنیوں میں زیادہ دیر نہیں رہ سکیں گے کیوں کہ گاڑیاں کمپنی کی تو نہیں ہماری اپنی ہیں۔ اگر یہ اپنی گاڑیاں ہمیں چلانے دیں تو پھر شاید یہ موجودہ مہنگائی کی مناسبت سے کمپنی نیا کرایہ مقرر کرے“۔
” ان ڈرائیو میں بڑی گاڑی کے لئے کوئی الگ سے کرایہ بھی نہیں لہٰذا بڑی گاڑی والے بہت زیادہ تنگ ہیں۔ کسٹمر ہمیں پورا کرایہ دے نہ دے لیکن کمپنی پیچھے بیٹھ کر اپنا منافع کما رہی ہے۔ ہمارا ناقابل واپسی شرح فی صد پہلے ہی کاٹ لیا جاتا ہے۔ پھر اگر کسی مد میں کوئی قابل واپسی ہو بھی تو اس رقم کو 25 سے 30 دن استعمال کر کے ہمیں واپس کیا جاتا ہے۔ قبر کا حال مردہ ہی جانتا ہے! انتہائی پریشانی کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں۔
ہم پٹرول پورا کریں، گاڑی کی ضروری دیکھ بھال کریں، کمپنی کو اس کی شرح فی صد دیں یا اپنا گھر چلائیں؟ اس سے پہلے ہم نے کریم اور اوبر کے لئے بھی اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے گاڑیاں چلائیں تھیں۔ کریم والے ہمیں کسی کی بھی بے جا شکایت پر ناقابل واپسی جرمانہ لگا دیتے تھے۔ ہم ایک رائیڈ میں اتنا نہیں کماتے جتنا وہ جرمانہ لاگو کرتے۔ اب ان ڈرائیو میں جن پیسوں میں ہم جا رہے ہیں اس میں صرف پٹرول، گاڑی کی دیکھ بھال اور ڈرائیونگ کے دوران خود اپنا تھوڑا بہت خرچہ نکال کے ہم کوئی خاص کمائی نہیں کر رہے۔ پاکستان میں روزگار کے نہ ہونے کی وجہ سے ہم کو اس پلیٹ فارم کے ساتھ چلنا پڑ رہا ہے۔ میں تو یہ ہی درخواست کروں گا کہ حکومت کو اس بارے میں جلد کچھ سوچنا چاہیے کیوں کہ بہت سے لوگ اس روزگار سے منسلک ہیں“۔
ان صاحب کی بات چیت کے بعد میں نے دیگر ممالک میں مذکورہ بالا آن لائن کار کمپنیوں پر تحقیق کی تو علم ہوا کہ اس وقت پوری دنیا میں نیوزی لینڈ وہ واحد ملک ہے جہاں گاڑی چلانے والوں کو سہولیات حاصل ہیں۔ نیوزی لینڈ کی امپلائمنٹ کورٹ کی چیف جج جناب کرسٹینا انگلس نے 25 اکتوبر 2022 کو آن لائن کمپنی اور اس کے لئے گاڑیاں چلانے والوں کے مقدمے کا فیصلہ دیا : ”نیوزی لینڈ میں اوبر کے لئے گاڑ یاں چلانے والے کمپنی کے کنٹریکٹر نہیں بلکہ کمپنی کے باقاعدہ ملازمین مانے جائیں جنہیں ملکی قوانین کے مطابق تمام سہولیات دی جائیں“۔
پاکستان میں جہاں ہم بحیثیت کسٹمر یا پسنجر اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں وہیں آن لائن کار سروس کمپنیوں میں اپنی گاڑیاں اور موٹر سائیکل چلانے والے افراد کے بھی حقوق اور مسائل کی بات کرنا چاہیے۔ کاش کہ اس قومی مسئلہ پر ہمارے ارباب اختیار اور سیاسی لیڈران بھی کوئی لب کشائی کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں