عمران خان توجہ فرمائیے! 101

آہ پاکستان!

دیارِ غیر میں بیٹھے ہوئے پاکستان کے سیاسی، معاشی، معاشرتی اور اخلاقی حالات دیکھ کر دِل اِک آہ سی بھرتا ہے اور اپنے آپ سے کئی سوال کرتا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ پوچھتا ہے کہ ہم جیسے ساٹھ کی دہائی پار کرنے والے با اختیار یا بے اختیار لوگوں نے آنے والی نئی نسل کے لئے کیسا پاکستان چھوڑا ہے؟
دوسرا سوال قیام پاکستان کے ساتھ ہی ہمارے سیاستدانوں اور فوج کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی شروع ہو گئی تھی۔ کیا اس کھیل میں سیاستدان ذمہ دار ہیں یا فوج؟
تیسرا سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہمارے ہاں ریاست کے چاروں ستونوں نے اپنا اپنا کردار صحیح ادا کیا؟
چوتھا سوال کیا وطن عزیز میں بسنے والے کروڑوں لوگوں نے اپنا صحیح کردار ادا کیا ہے؟
میری نظر میں قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی لیاقت علی خان کو شہید کردیا جاتا ہے۔ جہاں سے سیاستدانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی سازش کا آغاز ہوا اور اس سازش کے پرتو ابھی تک نہیں کھل سکے۔ لیکن مبینہ طور پر اس کے پیچھے بھی مفاد پرست اور طاقتور لوگوں کا ہاتھ تھا اور پھر اس وقت غیر ملکی ہاتھ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جن کے راہنماﺅں کا خیال تھا کہ پاکستان کو کھڑا ہونے سے پہلے ہی گرا دو اور اس کے حصے بخرے کردو۔
لیاقت علی خان کے بعد جتنے بھی وزرائے اعظم آئے وہ بڑے کمزور اور ناتوانی کے عالم میں آئے۔ کسی کے پاس بھی کوئی ویژن نہیں تھا۔ ہمارے پاس آئین ہی موجود نہیں تھا جس کے ذریعے مملکتیں چلتی ہیں۔ ہم صرف اور صرف انگریز کے چھوڑے ہوئے قوانین اور نظام حکومت پر گزارہ کررہے تھے۔ نوزائیدہ پاکستان کا سائز ہندوستان سے پانچ گنا چھوٹا تھا۔ اس لئے یہاں طاقت اور وسائل کا توازن بھی نہیں تھا۔ جب کہ ہندوستان میں جواہر لال نہرو کئی سال تک حیات رہے اور ہندوستان کی بنیاد جمہوری اصولوں پر رکھی۔ گو کہ اس سے پہلے گاندھی کو بھی چھریوں کے وار کرکے ایک ہندو نے قتل کردیا تھا لیکن قیام ہند کے بعد ان کے ہاں فوری طور پر ایسا کوئی سانحہ پیش نہیں آیا جس طرح پاکستان میں آیا۔
اس وقت کے وزرائے اعظم کمزور اور ناتواں تھے۔ کوئی بوڑھاپے کی دہلیز پر تھا تو کوئی فالج زدہ۔ جس کی کوئی بات بیوروکریسی کو سمجھ نہ آتی تھی ماسوائے اس کی ایک گوری پرسنل سیکریٹری کے۔
فوج چونکہ ایک منظم ادارہ تھا انہوں نے بھانپ لیا کہ ہمارے سیاست دان اس قابل نہیں ہیں کہ ملک کو سنبھال سکیں لہذا ایوب خان کی شکل میں پہلا مارشل لاءنافذ ہوا جو دس سال تک چلا۔ اس دوران پاکستان میں ڈیم بنے اور معاشی ترقی ہوئی۔ کیوں کہ ایوب خان بلاشرکت غیرے ایک مطلق العنان حکمران تھا، ہر سیاہ و سفید کا مالک۔ ایوب کو کافی حد تک ڈکٹیٹر ہونے کے باوجود امریکہ، روس، چین اور مغربی دنیا میں پذیرائی حاصل ہوئی۔ اس وقت مشرق وسطیٰ کے ممالک کی کوئی حیثیت نہ تھی۔
ایوب خان نے عنان حکومت یحییٰ خان کو سونپ دی جو کہ ایک فوجی جرنیل اور آرمی چیف تھا۔ اس کی بدنظمی اور عیاشیوں کے قصے ہمیشہ تاریخ کی کتابوں میں محفوظ رہیں گے۔ اسی دوران مشرقی اور مغربی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو دو بڑے سیاستدان ابھر کر سامنے آئے۔ 1970ءمیں عام انتخابات ہوئے اور شیخ مجیب الرحمن بھاری اکثریت سے بھٹو سے جیت گیا لیکن فوج نے ایک بنگالی کو وزیر اعظم بنانے سے انکار کردیا۔ قصہ کوتاہ 16 دسمبر 1971 کو پاکستان دولخت ہو گیا۔ مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمن اور مغربی پاکستان میں بھٹو نے حکومت سنبھال لی۔ بھٹو ایک دبنگ سیاستدان تھا وہ پچھلے وزرائے اعظم کی طرح بے وقعت نہ تھا۔ لہذا اس نے پاکستان کو 1973ءکا متفقہ آئین دیا جو کہ مختلف ترامیم کے ساتھ تاحال نافذ العمل ہے۔
1977ءمیں جنرل ضیاءالحق نے بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹا اور کئی ماہ کی عدالتی جنگ کے بعد بالاخر بھٹو کو 1979ءمیں پھانسی دے دی گئی جسے بعد میں جوڈیشل مرڈر کہا گیا۔ ضیاءالحق 90 دن کا کہہ کر حکومت میں آئے اور گیارہ سال تک حکومت کرتے رہے بالاخر ایک فضائی حادثے میں انتقال کر گئے۔ اس دوران پھر جو وزرائے اعظم آئے وہ بے وقعت تھے ان کا کوئی سیاسی ماضی نہ تھا ان کے اندر کسی قسم کی لیڈرشپ کوالٹی نہ تھی۔ 1985ءمیں جنرل جیلانی کی سفارش پر نواز شریف کو متعارف کروایا گیا اور پانچ سال تک وزیراعلیٰ پنجاب رکھا گیا اس دوران بے نظیر بھٹو وزیر اعظم رہیں اور پھر ان کے درمیان مک مکا ہوا اور باریاں لگ گئیں۔ تین دفعہ نواز شریف وزیر اعظم بنا اور دو دفعہ بے نظیر بھٹو بھی۔ 1988ءمیں پرویز مشرف جو کہ چیف آف آرمی اسٹاف تھا نے ایک مرتبہ پھر مارشل لاءلگادیا اور نواز شریف حکومت کا تختہ الٹا دیا۔ اسی دوران نواز شریف پر مقدمہ چلا اور وہ اس کی صعوبت کو برداشت نہ کرسکا اور مشرف کے ساتھ تحریری معاہدہ کرکے سعودی عرب خود جلاوطن ہو گیا اور تمام خاندان بھی وہاں آباد ہو گیا۔ سات آٹھ سال مشرف نے حکومت کی اور پھر اس نے بے نظیر اور نواز شریف کو این آر او دے دیا جس کے مطابق ان کے تمام کیسز معاف ہو گئے۔
اسی دوران بے نظیر کو راولپنڈی میں شہید کردیا گیا اور آصف علی زرداری صدر پاکستان بنا اور یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم اور پھر راجہ پرویز اشرف یکے بعد دیگرے۔ اب اگلی باری نوازشریف کی تھی تو نواز شریف 2013ءمیں وزیر اعظم بنا اور 2018ءتک اس کی حکومت رہی اور پھر 2018ءسے 2022ءاپریل تک عمران خان وزیر اعظم رہا لیکن یہ سب لوگ فوج کی آشیرباد اور نرسریوں میں پھل پھول کر اقتدار میں آئے، فوج کو جو نشہ ایوب خان کی توسط سے لگا تھا اس کا اثر آج تک چلا آرہا ہے۔
اس وقت وطن عزیز کے اندرونی و بیرونی و معاشی حالات اس قدر دگرگوں ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ جنرل باجوہ اپنی تمام تر ضیافتوں کے بعد رخصت ہو گیا اور کہہ گیا کہ فوج A-Political ہے مگر موجودہ آرمی چیف عاصم منیر ابھی تک اسی کی پالیسیوں کو چلا رہے ہیں جس کا بنیادی مقصد پی ڈی ایم کا ہر حال میں ساتھ دینا ہے اور عمران خان کو ہر حال میں حکومت میں آنے سے روکنا ہے۔
پچھلے نو ماہ میں فوج کے چند جرنیلوں اور ان کے ماتحتوں نے پی ٹی آئی پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیئے ہیں، یہ پاکستان میں رائج کسی قانون اور آئین کو نہیں مانتے، ہر وہ کام کررہے ہیں جو پاکستان کو نقصان پہنچا رہا ہے اور 1971ءوالی تاریخ دہرائی جا رہی ہے کہ ایک پاپولر پارٹی اور لیڈر کو ہر حالت میں اقتدار سے دور رکھنے کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں۔
کالم کے شروع میں جو سوالات میں نے اٹھائے تھے وہ تشنہ طلب ہیں۔ ہم نے اپنے آنی والی اور موجودہ نسل کے لئے کچھ نہیں کیا۔ صرف اور صرف بے چارگی چھوڑی ہے۔
قیام پاکستان سے اب تک کے حالات کے ذمہ دار 80% فوج ہے اور 20% سیاست دان ہیں کیوں کہ سیاست دانوں کے اختیار میں کچھ تھا ہی نہیں۔
کیا ہمارے ریاستی ستونوں نے اپنا کردار ادا کیا ہے؟ تو اس کا جواب بھی نا ہے۔ انہوں نے صرف اور صرف لوٹ مار کی ہے اور بگار پیدا کیا ہے۔
آخر میں اور سب سے اہم حصہ پاکستانیوں کا ہے کہ کیا انہوں نے صحیح کردار ادا کیا ہے؟ تو جواب ہے نا! پاکستان میں لوگوں میں وہ شعور اور آگہی ہے ہی نہیں کہ وہ اچھے کو اچھا اور بُرے کو بُرا کہہ سکیں، ہر کوئی پیسہ بنانے کی دوڑ میں ایک قوم نہ بن سکے، ہم صرف اور صرف ایک ہجوم رہے۔ جس کی کوئی منزل نہیں ہوتی اور ایسی قومیں تاریخ کے اوراق میں گم ہو جایا کرتی ہیں۔ موجودہ حالات بہت بڑے حادثات کی نشاندہی کررہے ہیں۔ خدارا ہوش کے ناخن لیں۔ وگرنہ بہت دیر ہو جائے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں