نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 389

اعلان جنگ

بڑا ڈرتے ڈرتے میں یہ لکھنے کی جسارت کررہا ہوں کہ پاکستان میں ان دنوں سیاسی رسہ کشی حب الوطنی بمقابلہ غداران وطن کی منظر کشی کررہی ہے۔ جس طرح کے واقعات پیش آرہے ہیں اور جس طرح کی اطلاعات ملکی و غیر ملکی حساس اداروں کی جانب سے آرہی ہیں اس سے تو یہ ہی نتیجہ نکلتا ہے جس کا تذکرہ میں اوپر کر چکا ہوں۔ غداران وطن کوئی نئی اصطلاح نہیں ہے جب سے راج نیتی کا کھیل شروع ہوا ہے تب سے اقتدار کے لالچ نے لوگوں کو ملک، قوم اور مذہب سے غداری پر راغب اور آمادہ کرنا شروع کردیا ہے۔ فرق صرف اتنا سا ہے کہ پہلے یہ کام سر بہ کفن رکھتے ہوئے انتہائی رازداری اور سات پردوں میں چھپ کر کیا جاتا تھا جسے محلاتی سازشوں کا نام دیا جاتا تھا یعنی کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوا کرتی تھی اس لئے کہ غداری کا راز فاش ہوتے ہی غدار کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا۔ اس وجہ سے اس زمانے میں غداروں کی اتنی بہتات نہیں ہوا کرتی تھی جتنی آج کل ان کی فراوانی ہے اس لئے کہ اب جمہوریت کی بازیابی نے قانونی کاموں کو سہل ہونے کے بجائے اور مشکل اور پیچیدہ بنا دیا ہے جس کی وجہ سے غداری کرنے والوں کو اس طرح کی سزائیں دینے کی روایت ختم کردی گئی ہے جن کے وہ مستحق تھے جس کے نتیجے میں دوسرے جراثیم کی طرح سے اس ذلت آمیز جرم کو کرنے میں بھی لوگوں نے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششیں شروع کردی ہیں اور اب غداری جیسے مکروہ اور گناہ آلود جرم کو بھی لوگ فخر سے کرنے لگ گئے ہیں جس سے میر جعفر اور میر صادق کی روحوں کو تسکین مل رہی ہو گی۔
حکومت کشمیر کا مقدمہ پوری توانائی کے ساتھ لڑ رہی ہے جب کہ اپوزیشن اور ملکی میڈیا اپنے ذاتی مفاد کو ملکی مفاد پر ترجیح دیتے ہوئے ملک میں انتشار کی سیاست کرتے ہوئے حکمراں پارٹی کی راہ میں روٹے اٹکا رہے ہیں۔ ملک کا بچہ بچہ اب اس صورتحال سے واقف ہو چکا ہے کہ ملک کی اپوزیشن پارٹیوں کا ایجنڈا کیا ہے۔ اور وہ کس کے اشارے پر یہ سب کچھ کررہے ہیں، کون کشمیر کے معاملے کو پس پشت ڈالنے کی کوشش کررہا ہے۔ وہ بھی سب کو معلوم ہے، باتیں بڑی سادہ سی ہیں، میڈیا کے دوستوں کو ساری حقیقت کا علم ہے لیکن چونکہ انہیں بھی موجودہ حکومت سے شکایتیں ہیں اس لئے وہ بھی اپوزیشن کے ”حکومت گراﺅ“ مہم میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں، میں پہلے ہی ذکر کر چکا ہوں کہ ہمارے ہاں حب الوطنی کا فقدان ہو گیا ہے، غداری نے ذاتی مفاد کا لبادہ اوڑھ لیا ہے اور ذاتی مفاد کو ملکی مذہبی اور قومی مفاد پر ترجیح دیتے ہوئے لوگ غداری جیسے ناقابل معافی اور ناقابل برداشت جرائم کرنے سے بھی گریز نہیں کررہے ہیں۔ مجھے تو یہ دیکھ کر ہی حیرت سے زیادہ غصہ آرہا ہے کہ حکومت اور سلامتی کے اداروں کو جب ساری صورتحال کا علم ہے اور ان کے پاس ناقابل تردید شواہد بھی آچکے ہیں تو پھر بھی قانون کو حرکت میں آنے میں اتنی تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟ اس طرح کے عناصر کو پابند سلاسل کیوں نہیں کیا جارہا ہے۔ جو نہ صرف غداری اور ملک دشمنی کے چلتے پھرتے اشتہار بن گئے ہیں بلکہ اپنے چاہنے والوں اور عقیدت مندوں کے لئے رول ماڈل بنتے جارہے ہیں اور یہ ایک انتہائی سنگین صورتحال ہے جس کا خاتمہ یا جس کا روکنا اس ملک کی سلامتی اور اس کی بقاءکے لئے بہت ضروری ہوگیا ہے۔ اس طرح کی سنگین ترین صورتحال کا دفاع نہ تو جمہوریت اور نہ ہی آزادی اظہار رائے سے کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ اس طرح کے عناصر کو تو میر جعفر اور میر صادق کی طرح سے نشان عبرت بنانے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ کسی کو مادر وطن سے غداری کرنے کی جرات نہ ہو۔ اتنے سخت ترین الفاظ کا استعمال میں اس لئے کررہا ہوں کہ مجھ سے یہ موجودہ صورتحال دیکھی نہیں جارہی ہے۔ ہماری سیاست اور صحافت دونوں ہی غداری جیسی لعنت سے سے کسی حد تک رنگ چکی ہے جس کا صفایہ اب ضروری ہو گیا ہے۔ ورنہ یہ وہ لعنت پورے صحافت اور سیاست کو ہی اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ صحافت اور سیاست میں حب الوطنوں کی تعداد بہت زیادہ ہے مگر گندے انڈے جہاں کہیں بھی ہوں ان کی وجہ سے پورا تالاب ہی گندا ہو جاتا ہے اس لئے اب ان کا تدارک ضروری ہو گیا ہے۔
سیاست کرنا ہی کسی کا جمہوری حق ہے اور اسے تعمیری انداز میں کرنا چاہئے لیکن جب آپ کو احساس ہو جائے کہ آپ کی آواز دشمن کی آواز بن رہی ہے تو پھر خاموش ہو جانا ہی بہتر ہوتا ہے۔ آج سیاست کی آڑ میں ملک اور مذہب دشمنی کی جارہی ہے۔ سیاست کو مذہبی لبادہ اوڑھا کر سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنا کر انہیں حکومت وقت کے خلاف اکسا کر سڑکوں پر لائے جانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس ہتھکنڈے کو روکنے کے لئے حکومت کو سرکاری مشینری کو حرکت میں لانا چاہئے جو سیاستدان اور صحافی اور اینکرپرسن دشمنوں کے آلہ کار بن کر ملک میں افراتفری پھیلا کر کشمیر کاز کو نقصان پہنچا رہے ہیں ان کے خلاف آپریشن کرتے ہوئے ترکی حکومت کی طرح سے انہیں پابند سلاسل کردینا چاہئے۔ اس طرح کے ملک دشمن اور غیر ملکی سہولت کار کسی بھی رعایت کے مستحق نہیں۔
میری اس رائے اور سوچ سے میرے صحافی دوست ضرور نالاں ہوں گے لیکن ہر کسی کی ذاتی سوچ اور رائے ہوتی ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر کوئی میری رائے سے اتفاق کرے، میں نہ تو عمران خان کا ورکر ہوں اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ کا کوئی آلہ کار ہوں، میں تو جو کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں اس سے ہی نتیجہ اخذ کرتے ہوئے یہ لکھ رہا ہوں کہ اب حکومت اور ملکی پالیسی سازوں کو حرکت میں آجانا چاہئے اور ملک دشمنوں کو وقت ضائع کئے بغیر ہی ان کے منطقی انجام تک پہنچا دینا چاہئے۔ یہ اسلام آباد مارچ دراصل ملک دشمنوں کی جانب سے اعلان جنگ ہے اور جنگ کا جواب جنگ سے ہی سے دیا جاتا ہے۔ مذاکرات سے نہیں۔
آخر میں کینیڈا کے انتخابات میں لبرل پارٹی کی اکثریت سے کامیاب ہونے پر جسٹن ٹروڈو اور ان کے چاہنے والوں کو میری اور ادارہ پاکستان ٹائمز کی جانب سے مبارک ہو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں