بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 207

اعلیٰ عدالتوں کے جج یا کوٹھے کی طوائفیں

جس طرح پاکستان میں ہر شخص اپنے حصے کی چوری میں مصروف ہے اسی طرح تمام ادارے بھی آہستہ آہستہ تباہی کی جانب گامزن ہیں۔ ہر طرف افراتفری کا عالم ہے اور ہر شاخ پر اُلّو بٹھا دیا گیا ہے اور انجام گلستان خدشات کا شکار ہے۔ حالیہ خط جس میں چیف جسٹس رانا شمیم کے بقول ثاقب نثار نے نواز شریف اور مریم نواز کو الیکشن تک گرفتار رکھنے کے احکامات دیئے تھے، موضوع بحث ہے۔ دراصل ہمارا حافظہ بہت کمزور ہے۔ ہمیں جاننا ہو گا کہ چیف جسٹس رانا شمیم کا ماضی کیسا رہا ہے اور انہوں نے کیسے اور کیونکر اس بلندی تک کا سفر طے کیا۔ ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ نواز شریف گرفتار ہوں تو وہ اپنے کیس لاہور کی عدالتوں میں چلانے کی استدعا کردیتے ہیں۔ آصف زرداری پر کیس بنے اور انہیں جیل جانا پڑے تو وہ سندھ میں جیل کاٹنے کو ترجیح دیتے ہیں یعنی ہمارے سابق صدر ہوں یا سابق وزیر اعظم انہیں فیڈریشن پر اعتماد ہی نہیں بلکہ تمام کے تمام وفاق کی نمائندگی کے باوجود صوبائیت کے رنگ میں بری طرح رنگے ہوئے ہیں مگر چہروں پر نقاب ملک بھر کی نمائندگی کی چڑھائی ہوئی ہے۔ کوئی ایسا نہیں کہ جو ان سے سوال کرے کیونکہ گزشتہ 70 سالوں میں عدالتوں کے جج ہوں، بیوروکریسی ہو یا سرکاری افسران تمام کے تمام مختلف پارٹیوں کے پالتو ہیں اور اپنی اپنی پارٹیوں کے مفادات کے لئے ملکی مفاد کو داﺅ پر لگا رہے ہیں۔ کسی کو عوام کی فکر نہیں۔ نہ عوام کو ادراک ہے کہ ان کے ساتھ یہ کھلواڑ کیوں ہو رہا ہے۔ یہ بے چارے تو ہر نئے دن کے ساتھ نئی آس لگائے زندہ ہیں۔ مہنگائی کی بھٹی کی تپش بڑھتی جارہی ہے، نہ پیٹ کا جہنم بھرنے جیسے ہیں، اور نہ بجلی، پانی اور گیس ملنے کے باوجود بلوں سے بغاوت کرسکتے ہیں۔
ہمارے موجودہ وزیر اعظم جنہوں نے عوام کی دکھتی رَگ پر ہاتھ رکھا تھا اور عوام کو بلوں کو جلانے کی راہ دکھائی تھی، آج وہی سب کرتے دکھائی دے رہے ہیں جو ماضی کے حکمرانوں نے کیا تھا۔ حکومت کو صرف اور صرف اس بات کی فکر ہے کہ کس طرح وہ اسٹیبلشمنٹ کی چھتری تلے حکومت کرتی رہے خواہ کارکردگی صفر رہے۔ یاد رہے کہ موجودہ حکومت ہو یا اپوزیشن سب ننگے ہو کر عوام کے سامنے ہیں، اب یہ عوام کے شعور پر منحصر ہے کہ وہ آئندہ پاکستان کو بہتر بنانے کے لئے کیسے فیصلہ کرتے ہیں، آئندہ پاکستان میں نوجوان نسل کی تعداد زیادہ ہے اور ووٹ بھی پڑھے لکھے لوگوں کے ہاتھوں میں ہو گا۔ ایک ایسے موقع پر الیکٹرونک مشین کی ووٹنگ کے کیا اثرات مستقبل میں رونما ہوتے ہیں۔ یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ اللہ کرے کہ پاکستان کی آئندہ حکمرانی ایماندار اور نیک لوگوں کے ہاتھوں میں ہو تاکہ ملک مشکلات سے نکل سکے اور عوام سکھ کا سانس لیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں