کارنامہ یا ایک نئی جنگ کی شروعات 213

افغانستان ہمیشہ رہا آزاد۔۔۔!

بالاخر افغانستان جن کا تھا ان کے ہاتھوں میں واپس آگیا۔ شیر کے حلق میں سے نوالہ نکالنے والوں کو دنیا ہمیشہ سے ہی قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے، وہی حال ان کا ہے جو اس وقت کابل کے صدارتی محل پر قابض ہو گئے ہیں، یہ قبضہ 15 اگست کو ملا، یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے۔ 15 اگست اس ملک کی آزادی کا دن ہے جو ملک ایک بار نہیں بلکہ بار بار خود افغانستان کے راستے لٹتا رہا، ہر بار ہوتا رہا اور دوسرے کے ہاتھوں غلام بنتا رہا، میرا اشارہ تاریخی ملک اور ”سونے کی چڑیا“ کہلانے والی سرزمین ہندوستان کی جانب ہے اس ہندوستان کے جشن آزادی والے روز ہی افغانستان کا غیروں کے قبضے سے باہر نکلنا ایک عجیب سا اتفاق ہے، اپنے ملک ہندوستان کو دوبارہ لٹنے اور برباد ہونے سے بچانے کے لئے خود ہندوستان نے اپنے 32 قونصل خانے افغانستان میں کھولے ہیں جہاں ایک قونضل خانے کا بھی کام نہیں لیکن ہندوستان ان قونصل خانوں کے ذریعے وہی کام لیتا رہا جو ایست انڈیا کمپنی کے تاجر خود ہندوستان میں آکر کیا کرتے تھے لیکن ان کے وہ قونصل خانے نہ تو افغانستان کو اس کی تباہی سے بچا سکے اور نہ ہی وہ اپنے ملک کی بہتری کے لئے کچھ کر سکے۔ سوائے ان قوتوں کے کام کرنے کے جو افغانستان پر قابض ہو کر دوسرے ملکوں کو للکارا کرتے تھے۔
افغانستان ان کے ہاتھ سے گیا جو افغانستان کو اپنے عالمی بدمعاشی اور بلیک میلنگ کے لئے استعمال کررہے تھے، افغانستان کی سیاسی صورتحال کے بارے میں پاکستان کے غیر روایتی سیاستدان اور وزیر اعظم عمران خان نے جو کچھ برسوں قبل کہا تھا وہی باتیں آج دنیا کے سپرپاور امریکہ کے صدر جوبائیڈن نے افغانستان کو ہاتھوں سے نکلنے کے بعد کہہ ڈالی کہ ہمارے فوجیوں کو اس جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہئے جو جنگ خود افغانستان کی فوج نہیں لڑ سکتی۔ یہ ہی سب کچھ تو عمران خان نے بہت ہی پہلے کہا تھا جسے آج دنیا دہرا رہی ہے، چین دنیا کا پہلا ملک ہے جس نے طالبان کی حکومت کو نہ صرف تسلیم کرلیا ہے بلکہ ان کے ساتھ ہر طرح کے تعاون کرنے کا بھی عندیہ دے دیا ہے غرض جو کچھ بھی افغانستان میں ہو رہا ہے اس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ عالمی سیاست میں ایک ہل چل سی مچ گئی ہے، کرونا کے بعد دنیا کو اس صورت حال نے اپنی جانب متوجہ کردیا ہے اور دنیا ایک بار پھر نائن الیون کے سانحہ کی جانب پلٹ گئی ہے وہ سانحہ جس نے دنیا کے امن کو تہس نہس کردیا تھا جس کے بعد ہی تو ملاعمر کی حکومت کے خاتمے کے لئے افغانستان پر چڑھائی کردی تھی اور پاکستان کو امریکہ کا ساتھ نہ دینے کی صورت میں پتھروں کے دور میں پہنچانے کی دھمکی دی تھی۔ وہ سارے کے سارے حالات دوبارہ سے پیدا ہوتے ہوئے یا پھر کئے جاتے ہوئے نظر آرہے ہیں مگر کردار نہ تو امریکہ میں وہ رہے اور نہ پاکستان میں۔
مگر کھیل کچھ اسی طرح کا ہوتا ہوا نظر آرہا ہے، پوری دنیا ایک غیر یقینی کی کیفیت کا شکار ہو گئی ہے، یہ پہلا موقع ہے کہ مستحقین کو ان کا حق ملنے کے باوجود دنیا انہیں شک بھری نگاہوں سے دیکھ رہی ہے اس لئے کہ کبھی ایسا ہوتا نہیں ہے ایک غیر موقع سی صورتحال پیدا ہو گئی ہے کہ افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہو چکا ہے۔ اور امریکہ بہادر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر تماشا دیکھ رہا ہے۔ وہ افغانستان جس کی سرزمین امریکہ کو دنیا کا سپرپاور بنانے میں مددگار ثابت ہوئی ہے اب وہی زمین کسی کا اجتماعی قبرستان بننے جارہی ہے۔ افغانستان کی یہ تاریخ رہی ہے کہ وہ خود کبھی کسی کے قبضے میں نہیں آیا مگر فاتحین کی گزرگاہ ضرور رہی ہے۔ بابر سے لے کر شیر شاہ سوری، چنگیز خان سب کے سب نے اسی گزرگاہ کو اپنی کامیابی کے لئے استعمال کیا اور اسی گزرگاہ کے ذریعے روس کو شکست اور امریکہ کو سپرپاور بننے کا موقع ملا اور خود ہندوستان اسی گزرگاہ سے بار بار لٹتا رہا، تباہ و برباد ہوتا رہا۔ آج افغانستان دوبارہ سے خود ان کے وارثوں کے ہاتھوں میں چلا گیا جسے دنیا طالبان کے نام سے جانتی بھی ہے اور پہچانتی بھی ہے، طالبان یعنی علم کے طالب۔۔۔ وہ علم جو قرآن سے حاصل ہوتا ہے لیکن علم کے ان پیاسوں کو انسانی حقوق کے سپاہوں سے تشبیہہ دے کر انہیں اقوام عالم کے لئے ناابل قبول یعنی دہشت گرد بنا کر پیش کردیا گیا۔ یہ سب مغربی میڈیا کی کاریگری اور کارستانی ہے، آج افغاستان دوبارہ سے طالبان کے ہاتھوں میں آگیا۔ دنیا بھر کے دفاعی تجزیہ نگار اور سیاست پر گہری نظر رکھنے والے آزاد مبصرین افغانستان کی اس تازہ ترین صورتحال کو کسی آنے والے بہت بڑے طوفان کے پیش خیمہ کی نظر سے دیکھ رہے ہیں اور وہ اس تبدیلی کو خود عالمی طاقتوں کی سوچی سمجھی سازش اور چالبازی کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں ان کی نظر میں ایسا ہونا ممکن ہی نہیں کہ امریکی فوج جیسی جدید ہتھیاروں سے مسلح سپاہیوں پر مٹھی بھر طالبان کا غلبہ پالیں، یہ سب کچھ کسی بہت بڑے اہداف کے حصول کے لئے کیا گیا ہے اور اب طالبان کے اس قبضہ اور اس کے نتیجے میں ہونے والی کسی تباہی کو جواز بنا کر چین اور روس کے اتحاد میں شامل بعض ملکوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ افغانستان کی اس بدلتی ہوئی صورتحال سے پاکستان اور ترکی کا متاثر ہونا ایک فطری امر ہے۔ 2023ءبھی قریب آتا جا رہا ہے اور دنیا کو ترکی اور پاکستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات بھی کھٹک رہے ہیں اس طرح کے بہت سارے اہداف حاصل کرنے کے لئے طالبان کو ڈھیل دی گئی ہے اس طرح کے خدشے خود مغربی مبصرین ظاہر کررہے ہیں جب کہ چین کا سب سے پہلے طالبان کو تسلیم کرنا اوران سے ہر طرح کا تعاون کرنے کا عندیہ دینا کچھ اور اشارے کررہا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتلائے گا کہ افغانستان پر قابض طالبان کی حقیقت کیا ہے؟ لیکن فی الحال پاکستان کو اس وقت بہت ہی احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں