بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 315

الوداع اے محسن قوم الوداع

پاکستان کو ناقابل تسخیر بناے والے اور اسلامی ایٹمی طاقت کے بانی ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہم سے جدا ہو گئے (انا للہ و انا الیہ راجعون)۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جس طرح قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک مسلم مملکت کے قیام کے لئے جدوجہد کی اور دنیا کے نقشہ پر اسلامی جمہوریہ پاکستان قائم ہوا۔ اس قائم شدہ ملک کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل و کرم سے دوام اور استحکام بخشنے والے کا نام ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہے جنہوں نے بیرونی ممالک میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر خود کو پاکستان کی خدمت پر مامور کیا اور معاشی طور پر قلاش ملک پاکستان کو دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود ایٹمی قوت بنا ڈالا۔ مملکت خداداد پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے والا نہایت مشکل حالات میں زندگی گزارتا رہا۔ کہا جاتا ہے کہ ہم پاکستانی وہ قوم ہیں جو اپنے محسنوں کو کھا جاتے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی پر نظر ڈالیں تو قیام پاکستان کے بعد وہ قوم کی نظر میں ایک بیمار بوڑھے کے طور پر متعارف ہوئے، نہ قوم نے سمجھا اور نہ اپنے قائد کی حفاظت کرسکے۔ یوں سازشی عناصر نے جو اپنے بیرونی آقاﺅں کے غلام تھے اپنے ہی ہم وطن، محسن مسلمان قائد اعظم محمد علی جناح کو پہلے زیارت میں نظر بند رکھا اور بعدازاں انہیں کراچی لا کر عوام کو دھوکہ میں رکھنے کے لئے ان کے جنازے کو شان، عزت اور احترام سے پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفن کردیا اور ان کے مزار پر پہرا لگا کر ان کی شان بڑھائی۔
مگر وہ جب تک زندہ رہے، انہیں پاکستان بنانے کی سزا دی جاتی رہی پھر محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ جو سلوک کیا گیا، لکھا اور پڑھا جا چکا ہے، یوں بانی پاکستان اور پھر ان کے تمام رفقاءکو ایک ایک کرکے راستہ سے ہٹا دیا گیا اور وہ ٹولہ حب الوطنی کا نعرہ لگا کر پاکستان پر قابض ہوگیا جو قیام پاکستان کا ہی مخالف تھا مگر پاکستان بننے کے بعد اپنے مفادات کو دیکھتے ہوئے ملک پر حکمرانی کرنے لگا۔ پاکستان کی گزشتہ 72 سالہ تاریخ میں کئی حب الوطن آئے مگر جہاں انہوں نے پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کی کوشش کی، انہیں سنگین نتائج سے گزرنا پڑا اور وہ جو حب الوطن تھے، غدار قرار دے دیئے گئے اور یہ سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔
یہی کچھ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ بھی ہوا، ڈاکٹر صاحب 85 سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے مگر وہ پاکستان کو تو مضبوط بنا گئے مگر خود کو کمزور در کمزور کرگئے اور اپنے آخری ایام نظر بندی میں گزار دیئے۔ ان پر ان کی آخری سانس تک زندگی تنگ رکھی گئی کیونکہ امریکہ کے حکم سے روگردانی نہیں کی جا سکتی تھی۔ آج ان کی رحلت کے بعد وہی کچھ ہو رہا ہے کہ انہیں مختلف خطابات سے نوازا جا رہا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ ان کی وصیت تھی کہ انہیں فیصل مسجد میں دفن کیا جائے مگر ساتھ ساتھ یہ بھی خبریں ہیں کہ وہ ایچ8- کے قبرستان میں ہی تدفین چاہتے تھے۔ حقائق خواہ کچھ بھی ہوں مگر حکومت وقت کو ان کے مرتبہ کے لحاظ سے انہیں شاہ فیصل مسجد میں ہی دفن کرنا چاہئے تھا کہ قوم انہیں ہمیشہ یاد رکھتی اور ہر روز شاہ فیصل مسجد میں نماز ادا کرنے والے اور وہ مسلمان جو گھومنے کے لئے اسلام آباد آتے ہیں وہ بھی شاہ فیصل مسجد میں ان کی قبر پر فاتحہ پڑھتے رہتے اور ان کے ایصال ثواب کے لئے دعائیں جاری رہتیں مگر یہ نہ ہو سکا۔ شاید اللہ کو یہی منظور تھا اور ان کے لئے جو جگہ قدرت نے مختص کی تھی وہ وہاں منوں مٹی تلے دفنا دیئے گئے مگر ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے لوگ مرتے نہیں بلکہ شہید کا رتبہ پاتے ہیں کہ جنہوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو مضبوط بنایا اور ایک ایسا ایٹمی بم بنایا جسے اسلامی ایٹم کے نام سے یاد کیا جاتا رہے گا۔ یہی وہ طاقت ہے جس نے غیر مسلموں کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ سلام ہے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو کہ جنہوں نے معاشی طور پر قلاش ملک کو ایٹمی قوت بنا ڈالا مگر کیا ہمارے اندر ایمان کی وہ قوت موجود ہے جو اس بم کے استعمال کے لئے چاہئے۔
موجودہ فوجی قیادت سے تو امید نہیں اللہ شاہد کہیں فوج میں کوئی مرد مومن ضرور ہو گا جس کا ایمان تازہ ہوگا۔ امریکہ سرکار یہ جانتا ہے کہ پاکستان نے ایٹمی قوت تو حاصل کرلی ہے مگر وہ اسے استعمال کرنے کی جرات نہیں رکھتا، یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے ہمیشہ یہی کہا کہ انہیں خطرہ ہے کہ کہیں یہ ایٹمی طاقت طالبان حاصل نہ کرلیں کیونکہ اگر یہ چھوٹے ایٹمی ہتھیار طالبان کے ہتھے چڑھ گئے تو انہوں نے نعرہ تکبیر بلند کرکے شھادت کا مرتبہ حاصل کرنے میں دیر نہیں لگانا اور یہی وہ خوف ہے جو غیر مسلموں کی نیندیں اڑا دینے کے لئے کافی ہے۔
ڈاکٹر قدیر تو چلے گئے اور اچھی جگہ چلے گئے وہ قید سے آزاد ہو گئے مگر ان پر مظالم ڈھانے والے یاد رکھیں کہ احسان کا بدلہ احسان ہوتا ہے اور احسان فراموشی کی سزا اسی دنیا میں ہی ملنے والی ہے۔ فیض احمد فیض نے کیا خوب کہا تھا کہ
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کے جس کا وعدہ ہے
ہم دیکھیں گے ہم دیکھیں گے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں