پاکستان میں ادارے بمقابلہ عوام اور سیاسی حقیقی کا کھیل جاری اور ساری ہے۔ اس کھیل کے نتیجے میں اپنی ڈیزائن کردہ پارلیمنٹ کھڑی کردی گئی ہے اور اب اس پارلیمنٹ میں ایک شکست خوردہ پارٹی کے لیڈر کو ہاﺅس کا قائد ایوان یعنی وزیر اعظم بھی مقرر کردیا ہے اور اس طرح سے اب صدر مملکت کا بھی انتخاب عمل میں لایا جارہا ہے۔ ایک نا مکمل پارلیمنٹ سے اتنے بڑے بڑے فیصلے کروائے جارہے ہیں۔ پارلیمنٹ کے اس غیر قانونی کارروائیوں میں رکاوٹ بننے والے کانٹوں کو چیف الیکشن یا پھر عدالت عالیہ کے فیصلوں کے ذریعے ہٹایا جارہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں بڑے ہی ڈھٹائی کے ساتھ بے شرمی کا کھیل اس وقت ملک کے طاقت ور حلقے کھیل رہے ہیں۔ کچھ شرم ہوتی ہے، کچھ حیا ہوتی ہے جس کا یہ طنزیہ جملہ جس پر کہا گیا تھا کس طرح سے قدرت کا انتقام ان کے سامنے آگیا اور سیالکوٹ کے عوام کے سامنے خواجہ آصف بالخصوص اور پورے پنجاب میں شریف برادران بالعموم پوری طرح سے بے نقاب ہوگئے کہ اب تو عام لوگوں نے ہی اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے مظالم پر برملا یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ ”کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیاءہوتی ہے“ ہم پر ہارے ہوئے لوگوں کو مسلط کرنا انتہا اور بتا ظلم کی کیا ہوتی ہے؟ شرم ہوتی ہے کوئی چیز حیاءہوتی ہے، بتا بے ضمیروں کو خبر کیا ہے کہ کیا ہوتی ہے۔ پوچھ قیدی سے جو رہتا ہے اڈیالہ میں، تجھے بتلائے گا کہ کیا چیز وفا ہوتی ہے، یہ ہے پاکستان کے عام لوگوں کی صورتحال جو اپنے اس بدبودار نظام سے اکتا چکے ہیں، جہاں ظلم زیادتی اور نا انصافی کے سوا کچھ نہیں۔ پہلی بار ملکی عوام نے 8 فروری کے انتخابات میں اپنی نفرت کا کھلم کھلا اظہار کرلیا، وہی نفرت جس کے نتیجے میں پاکستان دولخت ہوا تھا۔ آج ایک بار پھر ان ہی قوتوں نے پاکستان کے محب الوطن عوام کے عزت نفس اور ان کے غیض و غضب کو للکارہ ہے، عوام کے شدید ترین نفرت کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے عوامی نفرت کو محبت میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جاتی مگر بدقسمتی سے خود عقل قل سمجھنے والوں نے غلطی پر غلطی کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے اور وہ اپنی بے وقوفی اور جاہلانہ پن کی وجہ سے عوامی نفرت میں اور اضافہ کرتے چلے جارہے ہیں یعنی وہ کام جسے ملک دشمنوں کو کرنا چاہئے وہ خود اپنے ملک کے اندر سے کیا جارہا ہے۔ اسے پاکستان اور پاکستانی عوام کے ساتھ کی جانے والی سازش نہ کہا جائے تو پھر اور کیا کہا جائے کیونکہ اس طرح سے کرکے پاکستان کی سلامتی سے ایک طرح سے کھلواڑ کیا جارہا ہے، اتنی نفرت تو پاکستانیوں میں سقوط ڈھاکہ کے وقت بھی نہیں تھی جتنی اس وقت پائی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے ہر کوئی اتنی بربریت اور ظلم و نا انصافی سہہ چکا ہے کہ ہر کوئی پھٹ پڑنے کو تیار ہے، ذرا ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ ان تمام لوگوں کو سوچنا چاہئے جو براہ راست اس تمام تر صورتحال کا ذمہ دار ہیں کہ آخر ان لوگوں نے چند سالوں میں ایسا کیا کردیا کہ عقیدت کے پھول برسانے والے اب ہاتھوں میں سنگ لئے دکھائی دے رہے ہیں۔ آخر ایسا کیا کیا گیا کہ پاکستانی عوام 90 ڈگری کے زاویے سے تبدیل ہو گئے ان کی سوچ ان کے ان کے خیالات اور جذبات ویسے نہیں جیسے پہلے کبھی ہوا کرتے تھے۔ اپنی اصلاح کرنے سے نہ تو کسی کا قدم کم ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی قدر و منزلت میں کوئی کمی آتی ہے، یہ ملک ہم سب کا ہے، ظلم کرنے والوں کا بھی اور ظلم سہنے والوں کا بھی۔۔۔ دنیا میں کبھی بھی ریاستیں اپنی عوام پر نہ تو چڑھائی کرسکی ہیں اور نہ ہی فتح یاب ہو چکی ہیں۔ ریاستیں عوام کے بل بوتے پر ہی پروان چڑھتی ہیں، اس لئے عوام کو ناراض اور اپنا دشمن بنانے سے دشمن کا کام تو آسان بنایا جا سکتا ہے، خود اپنا یا پھر ملک کا نہیں۔۔۔ اس لئے ملک کے وسیع تر مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے عوام کے زخموں پر مرہم رکھتے ہوئے ان کے جائز تحفظات کو دور کریں اور ان کا مینڈیٹ انہیں واپس کردیں وہ جسے چاہیں انہیں حکمران بنانے میں ان کی مدد کریں، اسی میں پاکستان کی بقائ، اس کی ترقی اور سلامتی مضمر ہے۔ 266

انا بمقابلہ انا

پاکستان میں جہاں ہوشربا مہنگائی نے غریبوں کی قمر توڑ دی ہے انہیں اپنی روح اور جسم کے رشتے کو اب برقرار رکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جارہا ہے، بالکل اسی طرح سے عمران خان کی حکومت کا اب اپنے غلط ترین فیصلوں کی وجہ سے حقیقی حکمرانوں کے ساتھ تعلقات کو برقرار رکھنا بھی مشکل ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ جس کی تصدیق سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور موجودہ وفاقی وزیر شبلی فراز کے اس بیان سے ہو رہی ہے کہ ”حکومت اور ادارے ایک پیج پر ہیں“ آخر انہیں اس طرح کا بیان داغنے کی ضرورت یا نوبت کیوں پیش آئی؟ اگر سب کچھ بہتر ہے تو۔۔۔؟ چونکہ سب کچھ بہتر نہیں ہے اس لئے شبلی فراز کو یہ کہنا پڑا۔ ویسے تو عمران خان پر ان کے مخالفین ”یوٹرن“ کا لیبل پہلے ہی چپساں کر چکے ہیں اس لئے میں اس موقع پر ”یوٹرن“ کا لفظ نہیں استعمال کروں گا بلکہ اتنا ہی کہوں گا کہ عمران خان کی حکومت ایک ایسے دوراہے پر پہنچ چکی ہے کہ انہیں اب کوئی نہ کوئی فیصلہ کرنا ہی پڑے گا۔۔۔ اب معاملہ آئینی حد بندیوں کا آگیا ہے یعنی وہی پرانا جھگڑا کہ کس کی کیا حد ہے؟ اور کون اپنی حد سے تجاوز کررہا ہے لیکن اب معاملہ دونوں جانب سے ”انا“ کا پیدا ہو گیا ہے یعنی صورتحال ”انا بمقابلہ انا“ والی پیدا ہو گئی ہے۔ ملک کے وسیع تر مفاد کے لئے کسی ایک کو اپنی انا کی قربانی دینا ہی پڑے گی۔ ایک طرف فرد واحد اور دوسری جانب پورا ادارہ کھڑا ہے۔ معاملہ ایک اہم ترین پوسٹنگ کا ہے، ایک اس طرح کی پوسٹنگ جو خالصتاً ایک پروفیشنل پوسٹنگ ہے اور اس کا فیصلہ ادارے کا اندرونی معاملہ ہے اور ہمیشہ سے فیصلہ اندرونی طور پر ہی ہوتا ہے۔ یہ تقرری کبھی بھی سیاسی بنیادوں پر نہیں کی گئی؟ لیکن اب کے بار عمران خان کی حکومت میں توہم پرستی کی وجہ سے اس اہم ترین پوسٹنگ کا فیصلہ بھی اچھے اور برے شگون کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش کی گئی جس سے ایک ٹکراﺅ کی سی پوزیشن پیدا ہو گئی ہے اور اس کے نتیجے میں افواہ سازوں کو اپنی کارستانیاں کرنے کا پورے کا پورا موقع مل گیا جس سے عمران خان کی مخلوط حکومت بہت ہی بری طرح سے لرز کر رہ گئی ہے۔ اپوزیشن نے نومنتخب آئی ایس آئی چیف کو مبارکباد دے دینا بھی شروع کردی جس سے صورتحال اور بھی زیادہ خراب ہو گئی اور آنے والے نئے آئی ایس آئی چیف کے خیالات کو بھی موجودہ حکومت کے خلاف کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
عمران خان جرنل آصف غفور کو آئی ایس آئی چیف بنانا چاہتے تھے، یہ انکشاف میڈیا کی رپورٹوں سے ہوا لیکن ادارے کی جانب سے کسی دوسرے جرنل کے نام کا اعلان کردیا گیا جس کی وجہ سے دونوں جانب کشیدگی اور غلط فہمی کا سلسلہ شروع ہو گیا اور اپوزیشن حسب روایت اس بجھتی ہوئی چنگاریوں کو ہوا دے کر آگ کا شعلہ بنانے میں لگی ہوئی ہے اور یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک عمران خان ادارے کی جانب سے کیے جانے والے اس اہم ترین فیصلے کی توثیق نہیں کرتے اور سمری پر دستخط کرتے ہیں۔ اس کے بعد ہی چائے کی پیالی میں اٹھنے والے اس طوفان پر قابو پایا جا سکے گا۔ ادارے کی یہ ہمیشہ سے روایت رہی ہے کہ اس کے سربراہ کے چناﺅ کا فیصلہ یا اختیار ملک کے وزیر اعظم کے پاس ہوتا ہے لیکن اس کے بعد ادارے کے کسی بڑے افسر تو کجا ایک معمولی سپاہی کی بھرتی یا ٹرانسفر پوسٹنگ کا بھی اختیار کسی حکومتی فرد کے پاس نہیں ہوتا۔ آئی ایس آئی چیف کی تقرری تو بہت بڑی بات ہے۔ ایسے میں اگر دیوانے کا خواب کہوں تو غلط نہ ہوگا۔۔۔
ان معاملات میں حضرت عمرؓ کے اسلامی تاریخی واقعہ کی مثال دینا درست نہیں اس لئے کہ اس واقعہ کی نوعیت کچھ اور تھی اور اس موجودہ صورتحال کی نوعیت کچھ اور ہے۔
افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال کے موقع پر آئی ایس آئی کے چیف کا کابل جانا اور اس کے بعد غیر ملکی میڈیا کا اس پر اپنے انداز سے تبصرے کرنا اور بعد میں اسی آئی ایس آئی چیف کو تبدیل کرکے پشاور کا کور کمانڈر بنانا یہ سب اہم ترین اقدامات ہیں۔ ملک اس وقت انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے اور اس وقت پاکستان اس طرح کے کسی بھی نازک ترین صورتحال کی خرابی کا متحمل نہیں ہوسکتا اس لئے اپوزیشن رہنماﺅں کو بھی چاہئے کہ محض اپنی سیاست کی خاطر اس حساس ترین معاملے کو زیادہ ہوا نہ دیں کیونکہ ملک دشمن قوتیں تو عرصہ دراز سے یہ ہی چاہ رہی تھیں کہ ادارے اور عمران خان آپس میں متصادم ہو جائیں اور ان کا کام آسان ہو جائیں۔ عمران خان کو بھی چاہئے کہ وہ ملک کے وسیع تر مفاد میں توہم پرستی سے نکل کر اس طرح کے نازک ترین فیصلوں میں اپنی ٹانگ نہ اڑائیں اور اپنی بیڈ گورننس کو درست کریں جس نے عام پاکستانیوں کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ مہنگائی کو کنٹرول کریں، اسی میں پاکستان کی بقاءاور سلامتی مضمر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں