کارنامہ یا ایک نئی جنگ کی شروعات 269

انا بمقابلہ انا

پاکستان میں جہاں ہوشربا مہنگائی نے غریبوں کی قمر توڑ دی ہے انہیں اپنی روح اور جسم کے رشتے کو اب برقرار رکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جارہا ہے، بالکل اسی طرح سے عمران خان کی حکومت کا اب اپنے غلط ترین فیصلوں کی وجہ سے حقیقی حکمرانوں کے ساتھ تعلقات کو برقرار رکھنا بھی مشکل ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ جس کی تصدیق سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور موجودہ وفاقی وزیر شبلی فراز کے اس بیان سے ہو رہی ہے کہ ”حکومت اور ادارے ایک پیج پر ہیں“ آخر انہیں اس طرح کا بیان داغنے کی ضرورت یا نوبت کیوں پیش آئی؟ اگر سب کچھ بہتر ہے تو۔۔۔؟ چونکہ سب کچھ بہتر نہیں ہے اس لئے شبلی فراز کو یہ کہنا پڑا۔ ویسے تو عمران خان پر ان کے مخالفین ”یوٹرن“ کا لیبل پہلے ہی چپساں کر چکے ہیں اس لئے میں اس موقع پر ”یوٹرن“ کا لفظ نہیں استعمال کروں گا بلکہ اتنا ہی کہوں گا کہ عمران خان کی حکومت ایک ایسے دوراہے پر پہنچ چکی ہے کہ انہیں اب کوئی نہ کوئی فیصلہ کرنا ہی پڑے گا۔۔۔ اب معاملہ آئینی حد بندیوں کا آگیا ہے یعنی وہی پرانا جھگڑا کہ کس کی کیا حد ہے؟ اور کون اپنی حد سے تجاوز کررہا ہے لیکن اب معاملہ دونوں جانب سے ”انا“ کا پیدا ہو گیا ہے یعنی صورتحال ”انا بمقابلہ انا“ والی پیدا ہو گئی ہے۔ ملک کے وسیع تر مفاد کے لئے کسی ایک کو اپنی انا کی قربانی دینا ہی پڑے گی۔ ایک طرف فرد واحد اور دوسری جانب پورا ادارہ کھڑا ہے۔ معاملہ ایک اہم ترین پوسٹنگ کا ہے، ایک اس طرح کی پوسٹنگ جو خالصتاً ایک پروفیشنل پوسٹنگ ہے اور اس کا فیصلہ ادارے کا اندرونی معاملہ ہے اور ہمیشہ سے فیصلہ اندرونی طور پر ہی ہوتا ہے۔ یہ تقرری کبھی بھی سیاسی بنیادوں پر نہیں کی گئی؟ لیکن اب کے بار عمران خان کی حکومت میں توہم پرستی کی وجہ سے اس اہم ترین پوسٹنگ کا فیصلہ بھی اچھے اور برے شگون کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش کی گئی جس سے ایک ٹکراﺅ کی سی پوزیشن پیدا ہو گئی ہے اور اس کے نتیجے میں افواہ سازوں کو اپنی کارستانیاں کرنے کا پورے کا پورا موقع مل گیا جس سے عمران خان کی مخلوط حکومت بہت ہی بری طرح سے لرز کر رہ گئی ہے۔ اپوزیشن نے نومنتخب آئی ایس آئی چیف کو مبارکباد دے دینا بھی شروع کردی جس سے صورتحال اور بھی زیادہ خراب ہو گئی اور آنے والے نئے آئی ایس آئی چیف کے خیالات کو بھی موجودہ حکومت کے خلاف کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
عمران خان جرنل آصف غفور کو آئی ایس آئی چیف بنانا چاہتے تھے، یہ انکشاف میڈیا کی رپورٹوں سے ہوا لیکن ادارے کی جانب سے کسی دوسرے جرنل کے نام کا اعلان کردیا گیا جس کی وجہ سے دونوں جانب کشیدگی اور غلط فہمی کا سلسلہ شروع ہو گیا اور اپوزیشن حسب روایت اس بجھتی ہوئی چنگاریوں کو ہوا دے کر آگ کا شعلہ بنانے میں لگی ہوئی ہے اور یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک عمران خان ادارے کی جانب سے کیے جانے والے اس اہم ترین فیصلے کی توثیق نہیں کرتے اور سمری پر دستخط کرتے ہیں۔ اس کے بعد ہی چائے کی پیالی میں اٹھنے والے اس طوفان پر قابو پایا جا سکے گا۔ ادارے کی یہ ہمیشہ سے روایت رہی ہے کہ اس کے سربراہ کے چناﺅ کا فیصلہ یا اختیار ملک کے وزیر اعظم کے پاس ہوتا ہے لیکن اس کے بعد ادارے کے کسی بڑے افسر تو کجا ایک معمولی سپاہی کی بھرتی یا ٹرانسفر پوسٹنگ کا بھی اختیار کسی حکومتی فرد کے پاس نہیں ہوتا۔ آئی ایس آئی چیف کی تقرری تو بہت بڑی بات ہے۔ ایسے میں اگر دیوانے کا خواب کہوں تو غلط نہ ہوگا۔۔۔
ان معاملات میں حضرت عمرؓ کے اسلامی تاریخی واقعہ کی مثال دینا درست نہیں اس لئے کہ اس واقعہ کی نوعیت کچھ اور تھی اور اس موجودہ صورتحال کی نوعیت کچھ اور ہے۔
افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال کے موقع پر آئی ایس آئی کے چیف کا کابل جانا اور اس کے بعد غیر ملکی میڈیا کا اس پر اپنے انداز سے تبصرے کرنا اور بعد میں اسی آئی ایس آئی چیف کو تبدیل کرکے پشاور کا کور کمانڈر بنانا یہ سب اہم ترین اقدامات ہیں۔ ملک اس وقت انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے اور اس وقت پاکستان اس طرح کے کسی بھی نازک ترین صورتحال کی خرابی کا متحمل نہیں ہوسکتا اس لئے اپوزیشن رہنماﺅں کو بھی چاہئے کہ محض اپنی سیاست کی خاطر اس حساس ترین معاملے کو زیادہ ہوا نہ دیں کیونکہ ملک دشمن قوتیں تو عرصہ دراز سے یہ ہی چاہ رہی تھیں کہ ادارے اور عمران خان آپس میں متصادم ہو جائیں اور ان کا کام آسان ہو جائیں۔ عمران خان کو بھی چاہئے کہ وہ ملک کے وسیع تر مفاد میں توہم پرستی سے نکل کر اس طرح کے نازک ترین فیصلوں میں اپنی ٹانگ نہ اڑائیں اور اپنی بیڈ گورننس کو درست کریں جس نے عام پاکستانیوں کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ مہنگائی کو کنٹرول کریں، اسی میں پاکستان کی بقاءاور سلامتی مضمر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں