نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 149

”تحریک عدم اعتماد“

یہ بھی ایک عجیب سا لطیفہ ہے، آج کے پاکستان کا۔۔۔ کہ ملک کے تمام وہ سیاسی جماعتیں جو بے اعتباری ہیں جو ایک دوسرے کو شک بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بے اعتمادی کا مظاہرہ دھوم دھام سے کرتی چلی آرہی ہیں، وہی ساری سیاسی پارٹیاں اب اکھٹی ہو کر عمران خان کے خلاف تحریک اعتماد لانے کی تیاری کررہی ہیں اور اسی مقصد کے تحت حکومتی اتحاد میں شگاف ڈالنے کی غرض سے اتحادیوں سے چوری چھپے اور کھلے عام ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان ملاقاتوں کا جو بھی نتیجہ نکلے لیکن اس وقت حکومتی اتحادیوں کی قدر منزلت اور اہمیت میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے، برسوں کے پرانے گلے شکوے تیزی کے ساتھ ختم ہو رہے ہیں اور ایک نئے جوش و جذبے کے ساتھ تحریک عدم اعتماد لانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں یعنی وہ لوگ جو یہ عدم اعتماد کی تحریک لانے کا اس وقت اہتمام کررہے ہیں وہ ایک دوسرے پر ایک ڈھیلے کا اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہیں مگر دوسرے کی منجھی ٹھوکنے کے لئے وہ اور عدم اعتماد کی تحریک لانے کے لئے اکھٹے ہو گئے یعنی جو اعتماد کے مفہوم سے بھی ناواقاف ہیں وہ اب عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لا رہے ہیں اس مقصد کے لئے انہیں ضرور کہیں سے کوئی اشارہ ملا ہے یا پھر کوئی ان کی ڈوریں ہلا رہا ہے ورنہ انہیں کوئی الہام ہوا ہے کہ یہ موقع اچھا ہے۔ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کا۔۔۔
کیونکہ عمران خان میں کوئی بدلاﺅ نہیں آرہا ہے بلکہ وہ پہلے کے مقابلے میں اور بھی زیادہ مضبوط ہو گئے ہیں، عسکری اداروں سے ان کے تعلقات پہلے کے مقابلے میں اور بھی زیادہ مستحکم ہو چکے ہیں تو کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ اب عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کیوں لائی جارہی ہے جب کہ ملک کی جو سب بڑی سیاسی جماعتیں یہ سب کھیل کھیل رہی ہیں وہ سب کی سب پارٹیاں اقتدار حاصل کرنے کی خواہش مند ہیں، ہر کسی کو خود وزیر اعظم یا پھر صدر مملکت بننا ہے، ملک ایک ہے مگر صدارت اور وزارت عظمیٰ امیدوار بہت سارے ہیں، ایک عدم اعتماد کی تحریک
لانے اور اس کے کامیاب ہونے سے کوئی ایک ہی وزیر اعظم اپنے منصب سے جائے گا اور اس صورت میں کوئی ایک وزیر اعظم بن سکتا ہے اور کوئی ایک صدارت کے مزے لے سکتا ہے مگر نہ تو کوئی دو تین وزیر اعظم بن سکتے ہیں اور نہ ہی صدر مملکت۔۔۔ مگر عدم اعتماد کی تحریک لانے والے آصف علی زرداری، بلاول بھٹو، میاں نواز شریف، مریم نواز، شہباز شریف اور خود سب سے بڑھ کر اعلیٰ حضرت مولانا فضل الرحمن بھی اب خیر سے وزارت عظمی کے خواب اٹھتے بیٹھتے
سوتے جاگتے دیکھ رہے ہیں۔ اس طرح سے تو صورت حال بہت ہی گمبھیر ہو چکی ہے اس میں بھی کوئی شک و شبہ والی بات نہیں کہ ملک کی بہت ساری سیاسی پارٹیاں بہت ہی دلجمعی اور دلچسپی کے ساتھ اس تحریک عدم اعتماد میں حصہ لے رہی ہیں اور ان کی یہ پوری کوشش ہے کہ وہ حکومتی اتحاد میں اتنا بڑا شگاف ڈالنے میں کامیاب ہو جائے کہ حکومتی ناﺅ ڈوب جائے اور اقتدار پکے ہوئے پھل کی طرح سے ان کی جھولی میں آگرے۔ اس لئے اب یہ کہا جا سکتا ہے اور خود سیاسی مبصرین کا ہی یہ خیال ہے کہ اگر کسی طرح کی کوئی رکاوٹ یا پھر رخندہ اندازی نہیں کی گئی تو یہ تحریک عدم اعتماد ضرور کامیاب ہو جائے گی اس لئے کہ جہانگیر ترین سے بھی اپوزیشن پارٹیوں نے رابطے کرنے کے دعوے کئے ہیں جو کہ ایک انتہائی خطرناک بات ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ تحریک عدم اعتماد عمران خان کو مزید مستحکم کرنے کا باعث بنتے جارہی ہے یا پھر اقتدار کے خواہش مندوں کے جوتیوں میں دال بٹنے جارہی ہے۔ یہ تو آنے والا وقت بتلائے گا لیکن کچھ نہ کچھ ضرور ہونے جارہا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں