بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 218

تسنیم صدیقی کی خدمات ناقابل فراموش ہیں

یوں تو پاکستان میں سول سرونٹس کی بڑی تعداد موجود ہے جن میں کچھ افسر ایسے ہیں جنہوں نے صرف اور صرف ذاتی مفادات کے لئے کام کیا۔ ملک کے کرپٹ سسٹم کا حصہ بن کر ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کرتے رہے۔ دنیا بھر میں دیکھا گیا ہے کہ سیاستدان آتے جاتے رہتے ہیں مگر ملک کی مشینری جسے آپ سول سرونٹس کہیں، بیوروکریٹ کہیں یا پھر اسٹیبلشمنٹ کے نام سے تعبیر کریں۔ ملک کے استحکام اور سالمیت کے خلاف ہونے والے اقدامات کے آگے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑتے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ صرف نیشنلسٹ ہوتے ہیں، ان کا عزم ملکی مفادات کی رکھوالی اور آئین کی پاسداری ہوتا ہے۔ ان کی سیاسی وابستگی بھی قومی مفادات کے آڑے نہیں آتی اور یہ لوگ صرف اور صرف عوام کی فلاح اور بہبود کے لئے کام کرتے ہیں مگر پاکستان میں جہاں ملک کا سیاسی نظام بگڑا وہیں عدلیہ اور ملکی مشینری میں بھی ایسی کالی بھیڑیں پیدا ہو گئیں جنہوں نے ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا۔ یوں سیاستدانوں کو آگے رکھ کر نہ صرف سیاسی سسٹم کو کرپٹ کیا بلکہ خود بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں مگر انہی افسروں میں کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے صرف اور صرف میرٹ پر فیصلے کئے۔ جنہوں نے سادگی کو اپنا شعار بنایا اور غریب عوام کی داد رسی کرتے رہے یقیناً آج کے پاکستان میں یہ کس قدر جان لیوا کام ہے مگر ماضی میں ایسے مرد مجاہد ضرور تھے جنہوں نے حق اور صداقت کا علم بلند رکھا۔
تسنیم صدیقی کا نام بھی ایسے ہی افسران میں شمار ہوتا ہے جنہوں نے اپنا پورا کیریئر ایمانداری سے گزارا اور نہ صرف اعلیٰ سرکاری عہدوں پر ان کی کارکردگی پر سوالیہ نشان نہ اٹھ سکا بلکہ انہوں نے اپنے آپ کو سماجی کاموں سے بھی وابستہ رکھا اور غریب عوام کے لئے پروجیکٹس کو روشناس کرایا۔
1965ءمیں سول سروسز میں داخل ہونے والے تسنیم صدیقی کا تعلق DMG گروپ سے تھا۔ آپ مشرقی پاکستان میں بھی فرائض منصبی ادا کرتے رہے، وہ ہمیشہ بنگالی عوام کو حب الوطن کہتے تھے اور ببانگ دہل اس بات کا اعتراف کرتے تھے کہ بنگالی علیحدہ نہیں ہونا چاہتے اور انہیں غدار کہنا زیادتی ہے۔ تسنیم صدیقی نے تعلیم، صحت اور رہائش کے ہر شہری کے بنیادوں حقوق کو تسلیم کیا اور ایک بیوروکریٹ ہونے کے باوجود شہریوں کے بنیادی حقوق کے لئے سرگرداں رہے۔ انہوں نے ہمیشہ ملک کی کچی آبادیوں کے لئے کام کیا۔ حیدرآباد میں کچی آبادیوں کے سربراہ رہے تو غریبوں میں مفت پلاٹوں کی منصوبہ بندی کی اور ”خدا کی بستی“ کے نام سے غریبوں کے لئے چھت مہیا کی۔ ان کے خلاف سندھ کے مقامی افراد نے مہم چلائی اور انہیں متعصب افسر کے طور پر پیش کیا، ان کے خلاف بہاریوں کو سندھ میں آباد کرنے کا بے بنیاد الزام بھی لگایا گیا۔ وہ چیف سیکریٹری بھی رہے مگر انہوں نے کبھی اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا اور یہی چیز سندھ کی افسر شاہی کو کھٹکتی رہی۔ انہوں نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے ملحقہ کچی آبادیوں کے لئے بھی آواز اٹھائی، ان کا کہنا تھا کہ ان غریب بستیوں میں آباد لوگوں کی بدولت ہی اسلام آباد کا نظام چل رہا ہے۔ گھروں میں کام کرنے والے ملازمین کا یہی ٹھکانہ ہے چنانچہ آپ ہمیشہ غریبوں کی آواز بنے۔
گزشتہ دنوں آپ اس دارفانی سے کوچ کر گئے مگر جو کچھ وہ غریبوں کو دے گئے اور جو کچھ وہ اپنے سنگ لے گئے وہ یقیناً ان کی آخری آرام گاہ کو جنت کی کیاری بنا دے گا۔ انہوں نے سازشوں کے باوجود اپنا کام جاری رکھا اور ذاتی مفادات پر ہمیشہ غریبوں کے مفادات کو ترجیح دی۔ وہ اللہ رب العزت پر کامل بھروسہ رکھتے تھے اور نہایت ایمانداری اور عزت کے ساتھ اپنا کام مکمل کرکے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
اللہ تعالیٰ انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ مرحمت فرمائے، آمین اور ان کے درجات کو بلند کرے۔ خدا اس پاکستان کی حفاظت فرمائے کہ ہم آہستہ آہستہ ملکی مفادات میں کام کرنے والوں کو کھو رہے ہیں اور ہمارے سروں پر ایسے افسران اور ایسے سیاستدان مسلط ہوتے چلے جارہے ہیں جنہوں نے پاکستان کو بازار میں بیٹھی طوائف بنا کر رکھ دیا ہے۔
اللہ رب العزت ہمارا محافظ ہو اور ہمیں ایسے رہنما اور ایسے افسران عنایت کرے جو مملکت خداداد پاکستان کو اس کے حقییق مقام تک پہنچائیں، آمین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں