کارنامہ یا ایک نئی جنگ کی شروعات 424

جمہوریت سے بلیک میلنگ کا خاتمہ

لگتا ہے پاکستانی سیاست سے بلیک میلنگ اور مصلحت پسندی کا خاتمہ بالخصوص اور ملکی پارلیمنٹ سے بالعموم ہوتا جارہا ہے۔ کشمیر کے تنازعے کی صورت میں ملک پر آئے اس نازک ترین گھڑی میں جس طرح سے ملک کی اپوزیشن پارٹیوں نے حکومت کو بلیک میل کرتے ہوئے انہیں مصالحت سے کام لینے پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔ وہ پوری قوم کے سامنے ہے، میں اپنی ان آنکھوں سے پہلی بار ملک کو جدید مغربی ملکوں کے طرز حکمرانی کے ڈگر پر چلتے ہوئے دیکھ رہا ہوں کہ حکومت بھی اپنا کام کررہی ہے اور ادارے بھی اپنا کام۔۔۔ کوئی کسی کے کام میں مداخلت نہیں کررہا۔ ہر ادارے کا سربراہ اپنے سرکاری امور کے لئے حکومت کی جانب دیکھنے کے بجائے اپنے پاس موجود اپنے آئین کو دیکھتے ہوئے اپنا قدم اٹھا رہا ہے حالانکہ دوسرے لوگوں کی طرح سے میں بھی یہ ہی سمجھ رہا تھا کہ جموں و کشمیر کی جداگانہ حیثیت ختم کرنے کے بھارتی جارحیت سے ملک میں جو بحرانی کیفیت آچکی ہے اس کی وجہ سے سابقہ سیاسی اور جمہوری روایات کے مطابق اپوزیشن پارٹیز بلیک میلنگ سے کام لے کر حکومت کو مجبور کردے گی کہ وہ اداروں کو قابو کریں اور کرپشن کے مقدمات میں گرفتاریوں کا سلسلہ بند کرادیں اور زیرحراست سیاستدانوں کو رہا کرادیں اور اپوزیشن پارٹیوں نے بالکل ایسا ہی کیا بھی۔ لیکن حکومت نے ان کی بلیک میلنگ اور مصلحت پسندی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اداروں کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کے اپنے عزم کا اعادہ برقرار رکھا جس کے مظاہر پوری قوم نے دو سیاسی خواتین کے گرفتاری کے سلسلے میں دیکھ لئے جس پر پوری قوم اور ان خواتین کی اپنی جماعتوں سے زیادہ میڈیا کے ان کارندوں نے آسمان کو سر پر اٹھانے کی کوشش کی جن کے مالی معاملات ان دونوں سیاسی خواتین کے عید سے قبل گرفتار ہونے کی صورت میں متاثر ہوئے، ان میں سے بعض کا کہنا ہے کہ عید سے قبل ان سیاسی بیگمات کی گرفتاری سے ان کی اپنی عید خراب ہو گئی۔ خوشی اس بات کی ہے کہ ملکی پارلیمنٹ بلیک میلنگ اور مصلحت پسندی جیسے اخلاقی بیماری سے پاک ہوتی جارہی ہے اسی بیماری نے پاکستان کی پوری سیاست اور اس کے نتیجے میں بننے والی پارلیمنٹ کو جرائم زدہ بنا دیا ہے آج کسی بھی سیاستدان کے دم کو اٹھا کر دیکھو تو اس کے نیچے سے دوچار مقدمات تو ہر حال میں نکلے گیں اگر کوئی ان سے اس کے بارے میں پوچھے تو ان کے پاس بہت ہی آسان سا جواب ہوتا ہے کہ یہ سب سیاسی مقدمات ہیں، میں یہ نہیں کہتا کہ وہ غلط یا جھوٹ بول رہے ہیں مگر ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ سب دودھ کے دھلے ہوئے ہیں، ان کے ہاتھ بھی بہتی گنگا میں رنگے ہوئے ہیں۔ پاکستانی سیاست اور جمہوریت محض بلیک میلنگ اور مصلحت پسندی کی وجہ سے جمہور سے بے گناہ ہو کر چند خاندانوں کے گھر کی کنیز بن کر رہ گئی۔ جس سے جمہور یعنی ملکی عوام کو اس طرح کا فائدہ نہیں پہنچا جس طرح کا پہنچنا چاہئے تھا۔ ملکی عوام غریب سے غریب تر ہوتے گئے اور اس جرم زدہ سیاست اور جمہوریت کے طفیل چند خاندان امیر سے امیر تر ہوتے گئے اور ان کے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ملکی ادارے بھی آئین کے بجائے ان کرپٹ سیاستدانوں کے ذاتی ملازم بن کر رہ گئے۔ اب جب موجودہ حکومت کی وجہ سے ملکی ادارے دھیرے دھیرے آزاد ہو کر آئین کے تابع ہوتے جارہے ہیں تو ملک میں قانون کا سورج بھی طلوع ہوتا جارہا ہے۔ قانون کے متحرک ہوتے ہی کرپٹ سیاستدانوں کی چیخیں نکل رہی ہیں ان کے ساتھ ہم نوا کے طور پر ان کے درباری میڈیا بھی برابر کی چیخ رہی ہے اس لئے کہ سپلائی لائن بُری طرح سے متاثر ہو رہی ہے۔ لوگوں کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہوتے جارہے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے کیمرے اور قلم بھی حرکت میں آگئے۔ غرض جموں و کشمیر کے اس تنازعے میں ملک میں آئے اس مشکل وقت میں بھی موجودہ حکومت نے بلیک میلنگ کا شکار نہ ہو کر انگلستان کے اس عظیم وزیر اعظم چرچل کے اس مشہور قول کی تجدید کردی کہ ”ظلم کی حکومت ختم ہوسکتی ہے مگر انصاف کی نہیں“ یعنی ملک میں کسی بھی طرح کے حالات کیوں نہ ہو لیکن انصاف کا نظام پورے آب و تاب کے ساتھ چلنا چاہئے۔ میرے ذاتی خیال میں موجودہ حکومت ایک جمہوری اور انصاف کے ٹریک پر چل رہی ہے مگر پاکستان کی اپوزیشن پارٹیاں اور ان سے منسلک میڈیا ایک ہی کورس مل کر گا رہا ہے کہ یہ سیاسی انتقام ہے اور سلیکٹڈ گورنمنٹ اپنے مقاصد کے لئے ملکی اداروں کو استعمال کررہی ہے ان سب کا یہ کہنا اس حد تک تو صحیح ہے کہ ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے اور جو سیاستدان اس طرح کا شور مچا رہے ہیں وہ اپنے اپنے ادوار میں اس طرح کے حربے استعمال کرچکے ہیں اس لئے انہیں اس طرح کا لگنا ایک فطری امر ہے لیکن اب کے بار ایسا نہیں ہو رہا ہے جس طرح سے وہ خیال کررہے ہیں انہیں اب یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ملک میں سوئی ہوئی جمہوریت اور اس سے نکلنے والے قانون کو خواب غفلت سے بیدار کر لیا گیا ہے اور اب وہ پوری طرح سے متحرک ہو کر قانون سے کھلواڑ کرنے والوں کے پیچھے پڑ گیا ہے۔ ملک میں سلیکٹڈ قانون کے حکمرانی کے بجائے یکساں قانون کی حکمرانی قائم کردی گئی ہے۔ کراچی کے حالیہ طوفانی بارشوں میں لوگوں نے الیکٹڈ گورنمنٹ کے کارنامے بھی دیکھ لئے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کو اور ان کی حکومت کو چاہئے کہ وہ پوری تندہی کے ساتھ نظام حکومت کو اسی طرح سے چلاتے ہوئے ملکی اداروں میں حکومتی اور دوسرے مداخلت کا سدباب کرتے رہیں اور چوروں و لٹیروں کی بلیک میلنگ میں بالکل بھی نہ آئے۔ سب کو ذاتی فائدے پر ملکی فائدے کو ترجیح دینے کے راہ پر گامزن کرنے کی ترغیب دیں اور ہر کسی کو قانون کا احترام کا پابند بنائیں، اسی میں نیا پاکستان مضمر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں