نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 356

جوتا سیاست

میرا جوتا ہے جاپانی، یہ پتلون ہے انگلستانی، سر پے لال ٹوپی روسی، پھر بھی دل ہے۔۔۔۔ یہ ایک بہت ہی پرانا مگر اپنے زمانے کے ساتھ ساتھ ہر زمانے کا ایک سدا بہار گانا بن گیا ہے۔ جس میں جوتے سے لے کر پتلون تک کی بات کی گئی ہے۔ ان دنوں پاکستان میں جوتا یعنی بوٹ کا تذکرہ بڑے ہی شد اور مد کے ساتھ کیا جارہا ہے اسی لئے میں نے اپنے اس ہفتے کے کالم کا عنوان بھی جوتے کو دے دیا ہے اور کالم کی شروعات یا پھر اس کی تمہید یا ابتدائیہ اس مشہور فلمی نغمے سے کی ہے۔
جوتے اور سیاست کا تعلق کوئی نیا نہیں ہے، سیاست مشرق کی ہو یا مغرب کی۔ سیاستدان گورا ہو یا کالا سب کی خصلتیں سب کی عادتیں تقریباً ایک ہی جیسی ہوتی ہیں اسی وجہ سے ان کا علاج بھی ہر جگہ ایک ہی جیسا ہوتا ہے، جوتے کے ذریعے کسی کی مرمت انتہائی تکلیف دہ اور ذلت آمیز کام ہے اس لئے کہ جوتا ہمیشہ پیروں کی زینت ہی رہتا ہے۔ اسے کبھی بھی سر کا تاج نہیں بنایا جا سکتا۔ عراق وار کے دوران جس طرح سے امریکہ کے مضبوط ترین صدر بش پر ایک پریس کانفرنس کے دوران کسی عراقی صحافی نے جوتا کھینچ کر مارا تھا جسے بعد میں ساری دنیا ٹی وی کے ذریعے اس روز دن میں کوئی دو سو سے زائد بار دیکھ کر لطف اندوز ہوئی تھی۔ اسی طرح کے واقعات سیاستدانوں کے ساتھ دوسرے ممالک میں بھی پیش آئے اور پیش آتے رہیں گے۔ اس لئے کہ سیاستدانوں کی وہ روش نہیں بدلی جو وہ شروع سے کرتے ہوئے آرہے ہیں۔
پاکستان میں جس جوتے یعنی جس بوٹ کا تذکرہ ان دنوں بڑھ چڑھ کر کیا جارہا ہے اس کا براہ راست تعلق پاکستانی سیاست سے ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان کی پوری سیاست ہی اس ایک بوٹ کے گرد گھوم رہی ہے تو غلط نہ ہوگا۔ پاکستان کے نامور ترین سیاستدان اس بوٹ کے زیر سایہ ترقی کرتے کرتے کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ اب ایک وفاقی وزیر نے ایک ٹاک شو کے دوران اس بوٹ یعنی جوتے کے ذریعے پاکستانی سیاستدانوں کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی تو اس پر ایک شور و غوغا اور ایک واویلا مچا دیا گیا جیسے اس وفاقی وزیر نے سیاستدانوں کو جوتا نہیں دکھایا ہو بلکہ توپ کے آگے باندھ کر اڑا دیا ہو۔ بقول مرزا غالب کے
عمر بھر ہم یوں ہی غلطی کرتے رہے غالب
دھول چہرے پہ تھی اور ہم آئینہ صاف کرتے رہے
وفاقی وزیر نے اس بوٹ کو آئینہ بنا کر پاکستانی سیاستدانوں کو ان کا اصلی چہرہ دکھانے کی کوشش کی تو وہ چراغ پا ہو گئے جیسے وفاقی وزیر نے انہیں ماں بہن کی گالی دی ہو وہ اپنے کردار کو درست نہیں کرتے، خود کو صاف نہیں کرتے اور آئینے کو بار بار صاف کرکے خود کو پاک کرنے کا ڈرامہ رچاتے ہیں۔ وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے کھلے طریقے سے ان کے کردار کو قوم کے سامنے بے نقاب کرکے اسی بوٹ کو ان کے سر پر دے مارا جس کی یہ عمر بھر پوجا کرتے رہے اور ایک سچا پجاری کبھی بھی اس کو برا بھل انہیں کہتا جس کی وہ پوجا کرتا آرہا ہو۔ اس لئے پاکستانی سیاستدانوں کو بھی اس جوتے یعنی بوٹ کی عوامی نمائش پر اس طرح سے خفگی یا دکھ کا اظہار نہیں کرنا چاہئے ان کی یہ شکایت کسی حد تک درست ہے کہ جوتے کی جگہ پیروں میں ہے اسے ٹیبل پر نہیں رکھنا چاہئے۔ لیکن اس طرح کا اعتراض تو وہ لوگ ہی کرتے ہوئے اچھے لگتے ہیں جو ہر شے کو اس کے مقام پر رکھنے کے عادی ہو جو لوگ خود جوتوں کو پیروں کے بجائے سر کا تاج بنانے کے عادی ہو انہیں اس طرح کے تلخ اور کڑوے مذاق کا برا نہیں منانا چاہئے بلکہ برا منانے کے بجائے وہ اپنے گریبان میں جھانکیں اور دیکھیں کہ ان کا عمل کس طرح کا رہا ہے۔ دور نہ جائیں وہ اگر موجودہ قانون سازی کا ہی ذرا جائزہ لیں تو ان پر بھی اصلیت واضح ہو جائے گی۔ ویسے تو وہ سب جانتے ہیں مگر وہ بھی مرزا غالب کی طرح سے ”تجاہل عارفانہ“ سے کام لے رہے ہیں اس طرح سے جوتے کی نمائش پر واویلا کرکے وہ ایک طرح سے اپنے جرم کی تصدیق کررہے ہیں اور وہ یہ تسلیم کررہے ہیں کہ وہ جوتا پیر ہیں وہ جوتے کے مرید ہیں اور اس کے اشارے پر ہی ان کی پوری سیاست چل رہی ہے۔ جوتے کے بغیر ان کی حیثیت دو کوڑی سے زیادہ نہیں۔ جوتے بنانے یا جوتے کا وجود بادشاہوں کو نخلستان میں چہل قدمی کے دوران کانٹوں سے ان کے نرم و نازک پیروں کو محفوظ رکھنے کی وجہ سے عمل میں آیا تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک بادشاہ ننگے پیر اپے درباریوں کے ساتھ کسی جنگل میں گھوم رہا تھا کہ ایک کانٹا ان کے پیر میں چبھ گیا اور پیر سے خون نکلنے لگا۔ بادشاہ نے اسی وقت وزیر کو حکم دیا کہ پورے جنگل میں قالین بچھا دوں تاکہ وہ دوبارہ کسی کانٹے سے زخمی نہ ہو۔ یہ شاہی حکم سن کر وزیر پریشان ہو گیا۔ انکار کی ہمت نہیں تھی۔ اس لئے اپنی چالاکی سے بادشاہ کو پیروں کے لئے قالین والا جوتا بنا کر پہنانے پر قائل کیا اس طرح سے دنیا میں جوتے بادشاہوں کو آرام پہنچانے کے طفیل وجود میں آئے اور اب اسی جوتے کو درباری بادشاہوں کی قربت کے حصول کا ذریعہ بنا رہے ہیں۔ ایسا کرتے بھی ہیں اور اگر کوئی اسی جوتے کے ذریعے انہیں آئینہ دکھانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا برا بھی مانتے ہیں یہ ایک حقیقت ہے اور اس سے انکار پاکستانی سیاست کی ایک غالب اکثریت نہیں کر سکتی لیکن اس کے باوجود جوتے کی نمائش کا یہ طریقہ نا مناسب تھا۔ اس لئے کہ اس طرح سے تو کبھی کسی جوتے بنانے والی کمپنی نے بھی اپنی تشہیر نہیں کی جس طرح سے وفاقی وزیر نے کتابوں اور کھانے کی جگہ یعنی میز پر جوتے کو سجایا اس طرح سے کرکے وفاقی وزیر نے سیاسی جوتے کے رعب اور دبدبے میں مزید اضافہ کردیا جس سے کسی اور کو نہیں خود جمہور کی ڈھال جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ وزیر موصوف اگر خود جمہوریت کے طفیل وزیر بنتے تو وہ اس طرح کی غلطی نہ کرتے۔ جوتے کو سیاست سے بے دخل کرنے اور اس کے لئے سیاست کو نوگوایریا بنانے کے لئے سیاستدانوں کو متحد ہونا پڑے گا۔ اسی میں ان کی اور پاکستان کی بقاءاور سلامتی مضمر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں