نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 360

حقائق بمقابلہ زمینی حقائق

پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ہر وقت اندرونی اور بیرونی طور پر ملک کی سلامتی کے حوالے سے سازشیں چل رہی ہوتی ہیں جب کہ سازشیں کرنے والوں کے مقابلے میں ان پر نظر رکھنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے لیکن اس کے باوجود کلبھوشن جیسے بڑے خطرناک نیٹ ورک پکڑے ہی جاتے ہیں جس سے ملکی حساس اداروں کی چابک دستی اور ملک سے محبت کا پتہ چل جاتا ہے۔ پاکستان ہی دنیا کا وہ واحد ایٹمی ملک ہے جو ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود سلامتی کے حوالے سے ان دنوں سوالیہ نشان بنا ہوا ہے اس کی کیا وجوہات ہیں؟
اسی موضوع پر آج کا یہ کالم لکھ رہا ہوں آخر وہ کون سی وجوہات ہیں کہ جن کی وجہ سے ریاست کی سلامتی سے متعلق سازشوں اور تحریکوں میں کمی کے بجائے اس میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے اور ریاست کو علاقائی تنظیموں اور میڈیائی لبادے میں ملبوس دہشت گردوں سے ہر وقت نبردآزما ہونا پڑتا ہے۔ بظاہر تو اس کا سیدھا سادا سا یہ ہی جواب ہے کہ پاکستان میں اس سلسلے میں کسی طرح کی کوئی موثر قانون سازی نہیں کی گئی ہے یہاں آزادی اظہار رائے کا ایک خطرناک ہتھیار ان لوگوں کے ہاتھ لگ گیا ہے جو ملک کی سلامتی سے کھلواڑ کرتے ہیں ہر کوئی اسی ہتھیار کے ذریعے جب چاہے جہاں چاہے مادر وطن کا سینہ چیرنے کے لئے آجاتا ہے۔ سب سے پہلے تو ان کے ہاتھ سے آزادی اظہار رائے کے اس ہتھیار کو چھیننے کی ضرورت ہے اور اس مقصد کے لئے ملک کے دونوں ایوانوں سے سیاسی جماعتوں کے رونے یا ہنسنے کی پرواہ کئے بغیر ان کے ہاتھوں اس طرح کی قانون سازی کروالیں کہ آزادی اظہار رائے کا اطلاق نہ تو ملکی سلامتی پہ ہو اور نہ ہی ان سرکاری اداروں کے امور پر ہو جو ملکی سلامتی سے متعلق ہو۔ ملکی سلامتی سے متعلق ہر طرح کے بیان بازیوں اور لکھنے لکھانے کو خلاف قانون قرار دیا جائے۔ جس طرح سے دنیا کے دوسرے جمہوری ملکوں میں ملک کی سلامتی سے متعلق ہر طرح کے بیان بازیوں کی نہ صرف سختی سے ممانعت ہے بلکہ وہاں اس طرح کے الزامات میں غائب کئے جانے والے افراد سے متعلق عدالتیں بھی کارروائی نہیں کرتی اس لئے پاکستان کو بھی اپنی سلامتی کو یقینی بنانے اور ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اہم فیصلے کرنے ہوں گے جس میں سب سے اہم ترین مسئلہ ”آزادی اظہار رائے“ کا ہے اس کے غیر قانونی اور غیر اخلاقی استعمال کو روکنے کے لئے قانونی ترمیم کا سہارا لینا پڑے گا۔ تانہ کسی بھی ملک دشمن کو اس قانونی چھوٹ کے ذریعے مادر وطن کو زخمی کرنے کا موقع نہ مل سکے اور نہ ہی کسی کو چند ٹکوں کے عوض دشمنوں کا آلہ کار بن کر ملک کی سلامتی سے کھیلنے کی ہمت ہو یہ ایک بہت ہی ضروری کام ہے جسے سب سے پہلے کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے کہ ملک کی سلامتی جمہوریت اور اس کے طور طریقوں پر مقدم ہے۔
فاٹا کے صوبے میں ضم ہونے کے بعد جس خدشے کا اظہار کیا گیا تھا اس فتنے نے ملک دشمنوں کے تعاون سے سر اٹھانے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقے کو ملک دشمن پاکستان کی سلامتی کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کررہے ہیں جس کے لئے مغرب کی ایک درجن سے زائد آرگنائزیشن بھارت اور افغانستان کے ساتھ مل کر سرگرم عمل ہیں جب کہ مغربی میڈیا پوری طرح سے ان ملک دشمنوں کا سپورٹر بنا ہوا ہے جب کہ ملکی میڈیا کا ایک گروپ ان کے ساتھ مل کر قبائلی علاقوں میں موجود اس چنگاری کو ہوا دے کر آگ کا شعلہ بنانے میں لگا ہوا ہے یہ ساری کارروائیاں آزادی اظہار رائے کی آڑ میں ملک کی سلامتی کے خلاف کی جارہی ہیں اور اس مقصد کے لئے میڈیا کی بہت بڑی فنڈنگ کی جارہی ہے۔ جس کا علم ملک کے حساس اداروں کو ہے لیکن معلوم نہیں وہ ان زہریلے سانپوں کے ساتھ کیوں اتنی نرمی برت رہے ہیں جو ان کے سامنے دشمنوں سے بھی زیادہ بدتر کام کررہے ہیں۔ شاید ان کی یہ خاموشی ان کی حکمت عملی کا نتیجہ ہو۔ اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔ فی الحال تو حکومت کو وہی کرنا چاہئے جس کا تذکرہ بالائی سطور میں کر چکا ہوں۔ میں نے کالم کی ابتداءمیں پاکستان کے ایٹمی ملک ہونے کے باوجود اس کے سلامتی کے حوالے سے سوالیہ نشان کا ذکر بلاوجہ نہیں کیا تھا۔ اس کی وجہ ہے اور وہ وجہ اس کا ایٹمی ملک ہونا ہے وہ ایٹمی ذخائر کہاں ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ڈھونڈنے کے لئے دنیا بھر کے حساس اداروں نے کروڑوں ڈالر خرچ کرلئے، بھارت نے اس مقصد کے لئے بلوچستان کو خاص طور سے اپنا ہدف بنا رکھا ہے۔ مگر اس کے باوجود دشمن آج تک اس کا سراغ نہ لگا سکے۔ دشمنوں میں گھرے ہوئے کسی ملک کو اتنی بڑی شے کو دشمنوں کی نظروں سے بچا کر رکھنا واقعی کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ جس کے لئے پاک فوج ہر طرح کی مبارکباد کی مستحق ہے اور پاکستان کے محب الوطنوں کو اپنی فوج کی تعریف کرنی چاہئے جن کے دم سے ہم آج آزاد ملک میں سانس لے رہے ہیں ورنہ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ کئے جانے والے مظالم میں آج ہم بھی شامل ہوتے۔ اس لئے ہمیں اپنی اس آزادی اور خودمختاری کو آزادی اظہار رائے کے ذریعے ملک کو غلامی کے اندھیروں میں دھکیلنے والوں سے نبردآزما ہونے کے لئے خود آگے بڑھنا ہوگا۔ ان لوگوں کی نشاندہی کرنا ہوگی جو ملک کے سلامتی کے خلاف کارروائی کررہے ہیں۔ ان میڈیا ہاﺅسز کا بائیکاٹ کرنا ہوگا جو ملک کی سلامتی کے خلاف کام کرتے ہوئے ملکی عوام کو گمراہ کررہے ہیں ان علاقائی تنظیموں کے خلاف میدان میں آنا ہوگا جو بیرونی فنڈنگ سے اپنے سیکورٹی فورسز کے خلاف ہر وقت زہر اگلتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں تبدیلی آچکی ہے، حکومت اور فوج ایک ہی پیج پر ہیں اور دشمنوں سے یہ ہضم نہیں ہو رہا ہے جس کی وجہ سے وہ ان تحریکوں کو ہوا دے رہے ہیں جو ملکی سلامتی کے خلاف چل رہی ہیں ملک میں مسلط کی گئی مہنگائی میں بھی یہ ہی عناصر بالواسطہ یا براہ راست طور پر ملوث ہیں جو حکومتی نا اہلی کی وجہ سے اپنا کام مہنگائی کے حوالے سے کر چکے ہیں اور عوام کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ عمران خان کو چاہئے کہ وہ حالات اور واقعات کو سمجھنے کی کوشش کرے یہ اتحادی بلاوجہ حکومت کو بلیک میل نہیں کررہے ہیں؟ سب کی وجہ ایک ہی ہے اس لئے حکومت موثر ترین حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے خود کو اس بحران سے نکال کر دشمنوں کے عزائم کو ناکام بنائیں یہ ہی ایک بدلتے ہوئے پاکستان کا تقاضا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں