کارنامہ یا ایک نئی جنگ کی شروعات 196

سعودی عرب ترقی کی راہ پر گامزن یا۔۔۔؟

سعودی عرب کا شاہی خاندان اس وقت ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور وہ سعودی عرب کو بھی ہر لحاظ سے ترقی کی جانب لے جانے کی کوششیں کررہا ہے۔ وہ سعودی عرب کی مذہبی شناخت کے علاوہ دوسرے حوالوں سے بھی شناخت پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب دنیا بھر سے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی جوق در جوق سعودی عرب جارہے ہیں جن میں ہندوﺅں اور یہودیوں کے علاوہ دھریوں کی تعداد بھی اچھی خاصی شامل ہے۔
کیا یہ وہی ترقی ہے جس پر شاہی خاندان فخر کررہا ہے؟ مانا کہ سعودی عرب کی سب سے بڑی پیداوار پیٹرولیم کا زیر زمین کوٹہ ختم ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ سے اب شاہی خاندان کو اپنے وسائل بڑھانے کے لئے ملک کے دوسرے بڑے تجارتی شہروں میں سینما گھر، ناچ گانے کے پروگرام کرنے کے خاص طور سے اجازت دینا پڑی اور ایک طرح سے سعودی شاہی خاندان ملک کے بعض شہروں کو جدت کے لحاظ سے دوبئی کی ڈگر پر لا رہا ہے اور اس سلسلے میں ہندو اور خود سعودی تاجروں کو خصوصی رعایتی پیکیجز دینے کی بھی اطلاعات مل رہی ہیں اور اس طرح سے جب سعودی عرب بھی جدت کے لحاظ سے دوبئی اور ترکی کے ہم پلہ ہو جائے گا تو پھر دنیا بھر سے مسلمان سعودی عرب صرف عمرہ یا حج کرنے کی غرض سے نہیں جائیں گے بلکہ یہ معلوم کرنا مشکل ہو جائے گا کہ پاکستان سے کوئی مسلمان سعودی عرب جا کر اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے یعنی گناہوں میں کمی کرنے کے لئے جارہا ہے یا کہ اس میں اضافے کی غرض سے جارہا ہے۔
موضوع بڑا ہی نازک ہے لیکن کیا کروں جو صورتحال اس وقت سامنے آرہی ہے اس سے تو یہ ہی تاثر مل رہا ہے کہ سعودی شاہی خاندان نے آنے والے برے حالات سے سمجھوتہ کرکے ہی یہ انقلابی قدم اٹھایا ہے جس سے دنیا بھر کے مسلمانوں کی انہیں شدید ترین تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے ساتھ ان کے اس طرح کے روشن خیال اقدامات کو آزاد خیال دنیا مغربی ممالک نے پسند کیا اور سعودی شاہی خاندان کے ان اقدامات کو انہوں نے سراہا یا خاص طور سے یہودیوں اور ہندوﺅں میں تو ایک طرح سے خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ سعودی عرب کی سرزمین بھی اب ان کے رنگین مشغلوں کی مرکز بنتی رہے گی۔ جس طرح سے ان مشرکوں اور کفار کو اس طرح کے اقدامات کے لئے سعودی عرب کی سرزمین کی اجازت دینے سے وہ خوش ہو رہے ہیں اسی طرح سے اس پاک سرزمین سے عقیدے کی حد تک محبت کرنے والے دنیا بھر کے مسلمانوں میں اس سے غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے اور وہ اس فیصلے کو کچھ اچھی نگاہ سے نہیں دیکھ رہے ہیں اور نہ ہی ان سے سعودی شاہی خاندان کے یہ فیصلے ہضم ہو رہے ہیں کہ بالاخر سعودی عرب کو اسلام سے پہلے والے دور جہالت کے سعودی عرب میں دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے جہاں شراب و شباب کی عام محفلیں اور لونڈیوں کی خرید و فروخت کی منڈیا لگا کرتی تھیں اب سعودی عرب کے بعض شہروں کو جدت کے لحاظ سے دوبئی کی ڈگر پر آخر لانے کا مقصد کیا ہے؟۔۔۔
سب کو نہیں معلوم کہ دوبئی میں کیا ہو رہا ہے، وہاں کس طرح کے مشغلے ہندو اور یہودی کررہے ہیں اور اب اگر اس طرح کی ساری صورتحال ریاض اور سعودی عرب کے دوسرے شہروں میں کی جائے گی تو اس کے بعد سعودی عرب کے شاہی خاندان کی اپنی حیثیت کیا رہ جائے گی کہ ان کے دور حکمرانی میں مذہبی شناخت رکھنے والے سعودی عرب کو کس جانب گامزن کردیا گیا۔ سعودی عرب جو مسلمانوں کا قبلہ ہے اور مسجد نبوی اور دوسری اہم ترین زیارتیں وہاں ہیں جہاں جائے بغیر مسلمانوں کا دین مکمل نہیں ہوتا۔ جہاں حج اور عمرہ کی سعادت حاصل کی جاتی ہے جہاں دنیا بھر سے مسلمان اپنے گناہوں کے ازالے اور اپنی روحانیت کو جلا بخشنے کے لئے بار بار آنے کی حسرت دل میں لئے آتے ہیں جن کے بارے میں مسلمانوں نے کبھی غلطی سے بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ اس ارض مقدس میں وہ گانے یا ڈانس اور میوزک کی آواز سن سکیں گے؟ لیکن اب تو شاہی خاندان نہ جانے کس جذبے کے تحت وہ سب کچھ کرتے جارہے ہیں جو مسلمانوں کے دشمن یا ان کے مخالف کرنا چاہتے تھے اب سعودی عرب جانے والے مسلمانوں کے بارے میں کوئی بھی یہ یقین سے نہیں کہہ سکے گا کہ وہ عمرہ یا حج کرنے جارہا ہے کہ وہ کسی اور مصرف کے لئے سعودی عرب جارہا ہے۔
اللہ تعالیٰ ارض مقدس کو ہر طرح کے شیطانی حربوں سے محفوظ رکھے، آمین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں