نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 321

سندھ کی شہ رَگ کون کاٹ رہا ہے۔۔۔؟

کراچی ایک بار پھر ہاٹ ایشو بنتا جا رہا ہے۔ بحریہ ٹاﺅن کراچی میں قوم پرست تنظیموں کے مسلح کارندوں کے ہاتھوں شب خون مارنے کا واقعہ جہاں قابل مذمت اور افسوسناک ہے وہیں یہ حملہ ایک بہت بڑا پیغام بھی ہے۔ یہ ایک اس طرح کا پیغام ہے جو صرف کراچی کے مستقبل سے ہے اور اس شور شرابے والے شو کے ذریعے اسلام آباد کو یہ پیغام دیدیا گیا ہے کہ سندھ کے والی وارث کوئی خوب غفلت میں نہیں پڑے ہوئے، انہیں معلوم ہے کہ گریٹر بحریہ ٹاﺅن کا آخر مقدمہ کیا ہے۔۔۔؟ کیوں بحریہ ٹاﺅن کو کراچی سے جامشورو تک پھیلایا جا رہا ہے اس بیچ چھوٹے بڑے جو سو سے زائد پرانے گوٹھ آرہے ہیں ان سب کو پولیس اور سسٹم گروپ کی غنڈہ گردی کے ذریعے بلڈوز کیا جا رہا ہے۔ رکاوٹ بننے والے غریب ہاریوں کو خاک و خاشاک کی طرح سے بہایا جا رہا ہے۔ آخر یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے؟ کراچی کے رہنے والے قدیمی لوگوں کو ان کے باپ دادا کے گوٹھوں سے کیوں بے دخل کیا جارہا ہے؟ اور خود پاکستان پیپلزپارٹی کا اس میں کیا کردار ہے؟ وہ سیاسی انداز میں اس مسئلہ کا حل کیوں نہیں نکال رہی کہ غریب سندھیوں کو خود یلغار بن کر بحریہ ٹاﺅن پر حملہ آور ہونا پڑ رہا ہے اور اس سارے تماشے میں پولیس کا کردار کیا ہے؟ پولیس وہاں موجود کیوں تھی؟ اور غلطی سے شو آف فورس کرنے کے لئے وہ وہاں موجود بھی تھی تو پولیس نے ان حملہ آوروں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی؟ اور کیوں حملہ آوروں کو بحریہ ٹاﺅن میں جلاﺅ گھیراﺅ کا پورا موقع دیا اور وہاں کے رہنے والے پوش لوگوں کو اپنی جانیں بچانے کے لئے بمعہ بچوں کو گھروں سے باہر نکلنا پڑا۔ اس واقعہ سے خود بحریہ ٹاﺅن جو سب سے مہنگا ہاﺅسنگ پراجیکٹ ہونے کے باوجود غیر محفوظ علاقہ بن گیا۔ کسی بھی وقت دو درجن مسلح افراد وہاں حملہ آّر ہو کر کچھ بھی کر سکتے ہیں؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کراچی پولیس کسی بھی وجہ سے بے بس تھی یا پھر وہ خاموش تماشائی بن گئی تھی لیکن خود بحریہ ٹاﺅن کی سیکیورٹی کہاں مر گئی تھی؟ کہاں گئے ان کے سیکیورٹی کے جدید ترین آلات جو ان شرپسندوں کو روکنے میں ناکام رہے۔ اب تک یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ یہ سب کچھ کیا خود ریاض ملک کے اپنی مرضی یا پھر آشیرباد سے ہوا؟ یا پھر سندھ حکومت اس سارے معاملے میں فریق بن گئی ہے اور بحریہ ٹاﺅن کو محاذ بنا کر وفاق اور اس کے پس پردہ سرگرم قوتوں کو پیغام دینے کے لئے یہ ناٹک کیا گیا ہے پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ پیغام کیا ہے؟ اور آخر وفاق ایسا کیا کرنے جارہی ہے جس سے سندھ حکومت یا پھر پیپلزپارٹی کے کچھ تحفظات ہیں اس لئے کہ بحریہ ٹاﺅن کا کراچی کا یہ سب سے بڑا ہاﺅسنگ پراجیکٹ صرف ریاض ملک کی اپنی ملکیت تو ہو نہیں سکتا، سب کو معلوم ہے کہ اس ہاﺅسنگ پراجیکٹ میں خود آصف علی زرداری کا بھی بہت بڑا حصہ شامل ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ کراچی سے اندرون سندھ کا رابطہ ملیر گڈاپ میمن گوٹھ اور تھانہ بولا خان کے ان سو سے زائد گوٹھوں کی وجہ سے ہی جڑا ہے اگر درمیان سے ان گوٹھوں کو مسمار کرکے وہاں بحریہ ٹاﺅن بنا دی جائے تو اس کے بعد تو اندرون سندھ کا کراچی سے رابطہ پوری طرح سے کٹ جائے گا جس طرح سے شہ رگ سے انسان کے گردن کا پورے جسم سے رابطہ ہوتا ہے یہ ہی حال کراچی کے ان گوٹھوں کے ذریعے اندرون سندھ کا رابطہ ہے اور اب ایک خوبصورت منصوبہ بندی کے ساتھ اندرون سندھ کا کراچی سے رابطہ کاٹا جا رہا ہے جس کے بعد کراچی کو سندھ سے کاٹنے میں بہت ہی آسانی ہو جائے گی اور اب اگر یہ کہا جائے کہ بحریہ ٹاﺅن کی توسیع کرکے اسے جامشورو تک پہنچایا جا سکتا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہی ہے کہ جامشورو تک کراچی پھیل جائے گا اور صوبہ سندھ کی شروعات جامشورو کے بعد ہو گی یہ وہ خوفناک منصوبہ ہے جس کو روکنے کے لئے ہی بحریہ ٹاﺅن میں یہ ہنگامہ و فساد قوم پرست تنظیموں کی جانب سے کروائے گئے تاکہ ان کا اسٹرونگ میسیج ان حلقوں تک پہنچایا جا سکے جو یہ سب کچھ بہت تیزی کے ساتھ آگے بڑھا رہے ہیں یعنی کراچی کو مکمل طورپر وفاق کے حوالے کیا جا رہا ہے یہاں کا انتظامی کنٹرول وفاق کے ہاتھ میں ہو گا یہاں وفاق کا حکم چلے گا اس لئے کہ کراچی ایک بزنس حب ہے اور اسے تحفظ دینا وفاق کی ترجیحات میں شامل ہے۔
بحریہ ٹاﺅن کو کراچی سے جامشورو تک پھیلانا اسی منصوبے کا حصہ ہے جس کا علم سب کو ہے۔ پیپلزپارٹی کے دو گروپ تو اس منصوبے میں بالواسطہ یا براہ راست طور پر شمل ہیں جب کہ ایک موثر گروپ یہ سارا شو کروا رہا ہے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کو چاہئے کہ جو بھی ہو وہ لوگوں کے جان و مال کو نقصان پہنچانے سے بچانے کے لئے اقدامات کریں۔ یہ ہی سندھ کے دھرتی پر رہنے والوں کا مطالبہ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں