سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غیر آئینی قرار دے کر قومی اسمبلی بحال کردی 226

سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غیر آئینی قرار دے کر قومی اسمبلی بحال کردی

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی اور کابینہ کو تین اپریل کی حیثیت سے بحال کردیا جبکہ عدم اعتماد کی ووٹنگ کے لیے 9 اپریل کو اجلاس بلانے کا بھی حکم جاری کردیا۔

ذرائع کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے چار روزہ سماعت کے بعد از خود نوٹس کیس کا مختصر اور متفقہ فیصلہ سنایا جبکہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کرنے کا اعلان کیا۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ
سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے 8 صفحات پر مشتمل مختصر فیصلے میں ڈپٹی اسپیکر کی 3 اپریل کی رولنگ کو کالعدم قرار دیا اور وزیراعظم کی قومی اسمبلی توڑنے کی سفارش جبکہ صدر مملکت کے اسمبلی تحلیل کرنے کے حکم کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے تین اپریل کی حیثیت سے بحال کردیا۔

سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی کا اجلاس 9 اپریل 2022 صبح 10 بجے بلانے کی ہدایت کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کی کارروائی جاری رکھنے کا حکم دیا اور ہدایت کی کہ اگر عدم اعتماد کامیاب ہوجاتی ہے تو قومی اسمبلی نئے وزیراعظم کا انتخاب کرے اور اگر ناکام ہوتی ہے تو عمران خان بطور وزیراعظم اپنا کام جاری رکھیں، اسپیکر سمیت تمام ارکان فیصلے پر عمل درآمد کے پابند ہیں۔

مختصر فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 63 اے پر عدالتی فیصلے کا کوئی اثر نہیں پڑے گا، حکومت کسی صورت اراکین کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روک سکتی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم اسمبلی تحلیل کرنے کے اہل نہیں تھے لہذا ایوان کو پرانی حیثیت سے بحال کیا جائے اور اسپیکر ہفتے کو دوبارہ اجلاس طلب کریں۔ عدم اعتماد کامیاب ہو تو فوری نئے وزیراعظم کا الیکشن کرایا جائے۔

عدالتی فیصلے کے مطابق عمران خان بطور وزیراعظم جبکہ ا±ن کی کابینہ کے اراکین کی حیثیت بھی بحال ہوگئی، اسی طرح معاونین اور مشیر بھی عہدوں پر بحال ہوگئے۔

فیصلے کے تناظر میں سپریم کورٹ کی اندرونی اور بیرونی سیکیورٹی کو انتہائی سخت کیا گیا، کمرہ عدالت میں مخصوص افراد کے علاوہ کسی بھی غیر متعلقہ شخص کو داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔

ازخود نوٹس کیس کی سماعت کا آخری روز

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بینچ نے اسپیکر رولنگ از خود نوٹس کیس کی سماعت مکمل کر کے فیصلہ محفوظ کیا تھا، اس دوران حکومت اور اپوزیشن کے وکلاءنے دلائل مکمل کیے۔ لارجر بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندو خیل شامل تھے۔

فیصلہ محفوظ کرنے سے قبل چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیاست میں سب کا احترام ہے لیکن خدا قسم قوم قیادت کے لیے ترس رہی ہے، ایک بات تو واضح نظر آ رہی ہے اور وہ یہ کہ اسپیکر رولنگ غلط ہے، دیکھنا ہے اب اس سے آگے کیا ہوگا، اسمبلی بحال ہوگی تو بھی ملک میں استحکام نہیں ہوگا لیکن ملک کو استحکام کی ضرورت ہے جبکہ اپوزیشن بھی استحکام کا کہتی ہے، قومی مفاد کو بھی ہم نے دیکھنا ہے۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید نے بھی کہا کہ میں رولنگ کا دفاع نہیں کر رہا لیکن میرا مدعا نئے انتخابات ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے حالات و نتائج کو دیکھ کر فیصلہ نہیں کرنا ہے، عدالت نے آئین کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرنا ہے، کل کو کوئی اسپیکر آئے گا وہ اپنی مرضی کرے گا، عدالت نے نہیں دیکھنا کون آئے گا کون نہیں اور ہم نتائج پر نہیں جائیں گے۔

بلاول بھٹو زرداری کی عدالت میں پیشی

عدالت میں بلاول بھٹو بھی پیش ہوئے اور کہا کہ اپنے لیے حکومت بنانا ہماری ترجیح نہیں، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غیر آئینی ہے اور اسی غیر قانونی رولنگ نے وزیراعظم کی جمہوریت پر سوال اٹھایا، ہم حکومت بناکر اتنخابی اصلاحات کرنا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا انتخابی اصلاحات کی تجویز ٹیبل ہوئی؟ کیا انتخابی اصلاحات کے لیے کوئی بل جمع کروایا ہے؟ ہمیں پتا ہے آپ کے خاندان نے جمہوریت کے لیے قربانیاں دی ہیں، آپ کی سینیٹ میں جو انتخابی اصلاحات کی تجاویز ہیں وہ منگوا لیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بلاول بھٹو آپ کا شکریہ کہ آپ نے بہت زبردست بات کی اور آپ واحد ہیں جن کے چہرے پر مسکراہٹ تھی، ہمیں آئین پر سختی سے عمل کرتے ہوئے فیصلہ جاری کرنے دیں، فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق ہوگا، ہمیں معلوم ہے کہ بلاول بھٹو کی تین نسلوں نے جمہوریت کی بقا کے لیے قربانی دی ہے۔

اپوزیشن لیڈر شہباز شریف عدالت میں پیش

عدالت عظمیٰ میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کہا کہ رولنگ ختم ہونے پر تحریک عدم اعتماد بحال ہو جائے گی اور اسپیکر کی رولنگ کالعدم ہو تو اسمبلی کی تحلیل ازخود ختم ہوجائے گی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں کمزور نہیں بلکہ مضبوط حکومت چاہیے۔

شہباز شریف نے کہا کہ اگر عدالت اسپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دیتی ہے تو نتیجتاً وزیر اعظم کے اقدامات ختم ہو جائیں گے اور اس کے نتیجے میں ختم کی گئی اسمبلی بحال ہوجائے گی، آئین کو جیسے توڑا گیا اور معطل کیا گیا وہاں نتائج بھی ہوں گے۔ عدالت اللہ اور پاکستان کے نام پر پارلیمنٹ کو بحال کرے، پارلیمنٹ کو عدم اعتماد پر ووٹ کرنے دیا جائے۔

اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ حکومت 174 ووٹوں پر قائم تھی اور ہمارے ممبر 177 ہیں، آئین کی بحالی اور عوام کے لیے اپنا خون پسینہ بہائیں گے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 2013 کے الیکشن میں آپ کی کتنی نشستیں تھیں؟ شہباز شریف نے کہا کہ گزشتہ انتخابات میں 150 سے زائد نشستیں تھیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اپوزیشن پہلے دن سے الیکشن کرانا چاہتی تھی، شہباز شریف نے کہا کہ مسئلہ آئین توڑنے کا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آئین کی مرمت ہم کر دیں گے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ عدم اعتماد اگر کامیاب ہوتی ہے تو اسمبلی کا کتنا دورانیہ رہے گا؟ شہباز شریف نے بتایا کہ ڈیڑھ سال پارلیمنٹ کا ابھی باقی ہے، اپنی اپوزیشن سے ملکر انتخابی اصلاحات کریں گے تاکہ شفاف الیکشن ہو سکے۔

نعیم بخاری کے دلائل

اٹارنی جنرل کے دلائل سے قبل اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے وکیل نعیم بخاری نے پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کے میٹنگ منٹس سپریم کورٹ میں پیش کیے تھے جس میں انشکاف ہوا کہ وزیر خارجہ اور مشیر قومی سلامتی اجلاس میں شریک نہیں تھے۔

میٹنگ منتس پیش کیے جانے کے بعد عدالت نے استفسار کیا کہ کیا فارن منسٹر بھی اس میٹنگ میں موجود تھے یا نہیں؟ نعیم بخاری نے جواب دیا کہ نوٹس بھجوایا گیا تھا۔ عدالت نے پھر استفسار کیا کہ نوٹس تو چلا گیا، ہمارا سوال یہ ہے کہ وہ قومی سلامتی میٹنگ میں موجود تھے یا نہیں؟ نعیم بخاری نے کہا کہ لگتا ہے اس میٹنگ میں موجود نہیں تھے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایڈوائزر قومی سلامتی معید یوسف کا نام بھی اس میں موجود نہیں ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا وزیر خارجہ پارلیمانی کمیٹی اجلاس میں موجود تھے؟ وزیر خارجہ کے دستخط میٹنگ منٹس میں نظر نہیں آ رہے، کیا وزیر خارجہ کو اجلاس میں نہیں ہونا چاہیے تھا؟ نعیم بخاری نے کہا کہ وزیر خارجہ کو پارلیمانی کمیٹی اجلاس میں ہونا چاہیے تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ معید یوسف کا نام بھی میٹنگ منٹس میں نظر نہیں آ رہا۔

نعیم بخاری نے فواد چوہدری کا پوائنٹ آف آرڈر بھی عدالت میں پیش کر دیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر رولنگ کی بجائے اپوزیشن سے جواب نہیں لینا چاہیے تھا؟ نعیم بخاری نے کہا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر بحث نہیں ہوتی۔

جسٹس مظہر عالم اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کی کارروائی بڑی مشکل سے 2 یا تین منٹ کی تھی، چیف جسٹس کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ کیا پوائنٹ آف آرڈر پر اپوزیشن کو موقع نہیں ملنا چاہیے تھا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ رولنگ ڈپٹی اسپیکر نے دی جبکہ رولنگ پر دستخط اسپیکر کے ہیں، رولنگ پر ڈپٹی اسپیکر کے دستخط کہاں ہیں، پارلیمانی کمیٹی میٹنگ منٹس میں ڈپٹی اسپیکر کی موجودگی بھی ظاہر نہیں ہوتی۔ نعیم بخاری نے کہا کہ جو دستاویز پیش کی ہے وہ شاید اصلی والی نہیں ہے۔

دلائل کے آغاز میں جسٹس جمال مندوخیل نےنعیم بخاری سے استفسار کیا تھا کہ کیا اسپیکر کا عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ کرانا آئین کی خلاف ورزی ہے؟ نعیم بخاری نے سوالیہ انداز میں کہا کہ اگر اسپیکر پوائنٹ آف آرڈر مسترد کر دیتا تو کیا عدالت تب بھی مداخلت کرتی؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا زیر التوائ تحریک عدم اعتماد پوائنٹ آف آرڈر پر مسترد ہو سکتی ہے؟ نعیم بخاری نے کہا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر اسپیکر تحریک عدم اعتماد مسترد کر سکتا ہے، پہلے کبھی ایسا ہوا نہیں لیکن اسپیکر کا اختیار ضرور ہے، اب نئے انتخابات کا اعلان ہوچکا اور اب معاملے عوام کے پاس ہے، اس لیے سپریم کورٹ کو اب یہ معاملہ نہیں دیکھنا چاہیے۔

وکیل وزیراعظم امتیاز صدیقی کے دلائل

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بظاہر آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہوئی ہے، اگر کسی دوسرے کے پاس اکثریت ہے تو حکومت الیکشن اناو¿نس کر دے۔ الیکشن کرانے پر قوم کے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں اور ہر بار الیکشن سے قوم کا اربوں کا نقصان ہوگا، یہ قومی مفاد ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل میں کہا کہ عدالت نے ماضی میں بھی پارلیمان کی کاروائی میں مداخلت نہیں اور عدالت کے سامنے معاملہ ہاوس کی کارروائی کا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے قومی مفاد کو دیکھنا ہے۔

امتیاز صدیقی نے دلائل میں کہا کہ ایوان کی کارروائی عدلیہ کے اختیار سے باہر ہے بلکہ عدالت پارلیمان کو اپنا گند خود صاف کرنے کا کہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انتخابات کی کال دے کر 90 دن کے لیے ملک کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے اور اب وزیراعظم صدر کی ہدایات پر کام کر رہے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اگر مخلوط حکومت بنتی ہے تو کیا ممکن ہے کہ سب سے بڑی جماعت کو دیوار سے لگا دیا جائے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ درخواست گزاروں کی جانب سے کہا گیا کہ لیو گرانٹ ہونے کے بعد رولنگ نہیں آ سکتی، درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ 28 مارچ کو تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے پہلے رولنگ آ سکتی تھی، اس معاملے پر آپ کیا کہیں گے؟

وکیل وزیراعظم امتیاز صدیقی نے کہا کہ اپوزیشن نے ڈپٹی اسپیکر کی صدارت پر اعتراض نہیں کیا تھا، ڈپٹی اسپیکر نے اپنے ذہن کے مطابق جو بہتر سمجھا وہ فیصلہ کیا اور پارلیمان کے اجلاس میں ڈپٹی اسپیکر نے جو فیصلہ دیا اس پر وہ عدالت کو جوابدہ نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون یہی ہے کہ پارلیمانی کارروائی کے استحقاق کا فیصلہ عدالت کرے گی اور عدالت جائزہ لے گی کہ کس حد تک کارروائی کو استحقاق حاصل ہے۔

امتیاز صدیقی نے دلائل میں کہا کہ اسپیکر کو اگر معلوم ہو کہ بیرونی فنڈنگ ہوئی یا ملکی سالمیت کو خطرہ ہے تو وہ قانون سے ہٹ کر بھی ملک کو بچائے گا اور اسپیکر نے اپنے حلف کے مطابق بہتر فیصلہ کیا جبکہ اسپیکر کا فیصلہ پارلیمنٹ کا اندرونی معاملہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آرٹیکل 69 کو ارٹیکل 127 سے ملاکر پڑھیں تو پارلیمانی کارروئی کو مکمل تحفظ حاصل ہے اور سپریم کورٹ آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ جن فیصلوں کا حوالہ دیا گیا سپریم کورٹ ان پر عمل کرنے کی پابند نہیں، جس پر وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ معذرت کےساتھ مائی لارڈ، 7 رکنی بینچ کے آپ پابند ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ جن فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ان میں آبزرویشنز ہیں اور عدالت فیصلوں میں دی گئی آبزرویشنز کی پابند نہیں۔

وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے نیشنل سیکیورٹی کمیٹی پر انحصار کیا اور نیشنل سکیورٹی کمیٹی پر کوئی اثرانداز نہیں ہو سکتا۔

چیف جسٹس نے اسفتسار کیا کہ کیا ڈپٹی اسپیکر کے پاس کوئی مٹیریل دستیاب تھا جس کی بنیاد پر رولنگ دی؟ کیا ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ نیک نیتی پر مبنی تھی؟ ڈپٹی اسپیکر کے سامنے قومی سلامتی کمیٹی کے منٹس کب رکھے گئے؟

جواب میں وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کے معاملے پر مجھے نہیں معلوم، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جو آپ کو نہیں معلوم اس پر بات نا کریں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مطابق ڈپٹی اسپیکر کے پاس ووٹنگ کے دن مواد موجود تھا جس پر رولنگ دی۔ استفسار کیا کہ وزیراعظم نے آرٹیکل 58 کی حدود کو توڑا اس کے کیا نتائج ہوں گے؟ ڈپٹی اسپیکر کو 28 مارچ کو ووٹنگ پر کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن ووٹنگ کے دن رولنگ آئی۔ اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد 28 مارچ کو کیوں مسترد نہیں کی؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اسمبلی تحلیل نہ ہوتی تو ایوان ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ ختم کر سکتا تھا لیکن وزیراعظم نے صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسمبلی تحلیل کی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں