نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 774

سینیٹ کا دنگل

جس طرح سے شمع کے گل ہونے سے پہلے اس کے دھماکوں کے ساتھ بڑھکنے کا سلسلہ جاری ہوتا ہے کچھ اسی طرح کی صورت حال میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی کا ہے۔ روز بروز ان کے بیانات میں تلخی اور تیزی آتی جارہی ہے۔ اپنے پیادوں کے اپنی نظروں کے سامنے قربان ہوتے دیکھ کر انہیں اپنی موت بھی قریب آتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ جس کی وجہ سے ان کی باڈی لینگویج عجیب سے عجیب تر ہوتی جارہی ہے۔ اپنی بیماریوں کا جو واحد حل سینیٹ پر قبضہ کا انہیں نظر آیا تھا اس کا حصول بھی اب انہیں اس قدر مشکل دکھائی دے رہا ہے کہ میاں صاحب کو خود کشکول لے کر شہر شہر صوبہ صوبہ نکلنا پڑا لیکن سپریم کورٹ کے ہاتھوں اپنے ایک کاغذی شیر سینیٹر نہال ہاشمی کے اڈیالہ جیل بھجوائے جانے نے ان کی قمر ہی توڑ دی جب کہ ان کے دوسرے دو پیادوں کے قربان گاہ کی طرف جانے سے وہ فصلی بٹیرے نما پیادے خود بھی تذب بذب کے شکار ہو گئے، بالکل نئی نویلی دلہن کے مصداق بھی تو ہاتھوں کی مہندی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ بیوہ ہونے کا وقت آگیا۔ جن مشکلوں سے طلال چوہدری اور دانیال عزیز نے وزارتیں حاصل کی تھی اس کے خاتمے کا وقت آگیا ہے، یہ دونوں نوازئیدہ وزراءکسی بھی صورت سپریم کورٹ سے لڑنا نہیں چاہتے وہ معافی تلافی کرکے وزارت کے مزید مزے لوٹنا چاہیے ہیں لیکن ان کی ماسٹر مائنڈ مریم نواز تو جیل بھرو تحریک کے ذریعے عوامی دباﺅ بڑھانے کی پالیسی پر آگے بڑھنا چاہتی ہیں۔ اسی وجہ سے مریم نواز کے ڈنڈے کی وجہ سے دونوں طلال چوہدری اور دانیال دل پر پتھر رکھ کر سپریم کورٹ سے لڑنے کی پالیسی پر گامزن ہو گئے ادھر احتساب کورٹ کی کارروائی بھی تیزی کے ساتھ آگے بڑھتی جارہی ہے اور اب یہ واضح ہوتا جارہا ہے کہ مارچ کے وسط تک میاں نواز شریف کے مقدموں کا فیصلہ سنا دیا جائے گا اور ان کا وہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا جو وہ سینیٹ پر قبضہ کرنے کی صورت میں دیکھ چکے تھے۔ نواز شریف سینیٹ کے ذریعے اس طرح کی قانون سازی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کہ جس سے وہ سپریم کورٹ فوج اور نیب کے ادارے کو اپنے ذاتی ملازموں کی طرح سے استعمال کر سکیں اور ان مقدمات سے ان کی اور باقی خاندان کی گلو خلاصی ہو سکے لیکن لگتا ہے کہ میاں صاحب نے اس طرح کا خواب دیکھنے میں بہت دیر کر لی اور اب وقت ان کے ہاتھ سے نکل گیا اور اب وہی ہوگا جو قانون اور آئین میں لکھا ہے ایک بات جو میری سمجھ سے باہر ہے وہ یہ کہ میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی نہ جانے کیوں عدالت اور نیب پر بگڑ رہے ہیں انہیں دن رات گالیاں دے رہے ہیں خود روز ان کے حواری انہیں دھمکیاں دے رہے ہیں۔ بلیک میل کررہے ہیں، عدالتیں اور نیب تو ان ہی قانون پر چل رہے ہیں جو پارلیمنٹ بناتی ہے ان کا تو کوئی ایک بھی اختیار ایسا نہیں جو ان کا اپنا ایجاد کردہ ہو۔ میاں صاحب سمیت پوری مسلم لیگ کو تو اعلیٰ عدلیہ کا احسان مند ہونا چاہئے کہ سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے بنائے گئے تمام قوانین کی تشریح اس کے روح کے مطابق کررہی ہے۔ میرے خیال میں میاں صاحب کو ان ججوں میں جسٹس قیوم جیسا کوئی جج نہیں مل رہا جو آئین اور قانون سے ہٹ کر ان کے مشوروں پر بھی عدالت کو چلایا کرتا تھا۔ شاید اسی وجہ سے میاں صاحب کو اس صورت حال سے پریشان ہو رہی ہے اور وہ سپریم کورٹ اور نیب کو اپنی ڈگر پر چلانے کے لئے سینیٹ پر قبضہ کرکے اس سے اپنے پسند کی قانون سازی کروانا چاہتے ہیں تاکہ انہیں اس مشکل سے جان چھڑوانے میں آسانی ہو تانکہ 35 برسوں سے قومی خزانے سے لوٹی جانے والی دولت اور اپنے محلات کو وہ قانون کی گرفت سے بچا سکے۔ اسی وجہ سے اپنے امید کی آخری کرن کو پانے کے لئے میاں صاحب اور ان کی پارٹی سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں اور سینیٹ پر قبضہ کرنے کے لئے وہ کسی حد تک بھی جانے سے گریز نہیں کریں گے یہ ہی وجہ ہے کہ اس وقت پاکستان کے سیاسی تاریخ کی سب سے مہنگی ترین ہارس ٹریڈنگ ہو رہی ہے۔ اراکین اسمبلی کی قیمت اربوں تک پہنچ گئی ہے۔ ممکن ہے وہ کھربوں تک نہ پہنچ جائے۔ میاں صاحب اس وقت اراکین اسمبلی خریدنے کے سب سے بڑے بیوپاری بن کر سامنے آگئے ہیں انہوں نے اراکین اسمبلی خریدنے کے لئے اپنے خزانے کے منہ کھول دیئے ہیں وہ اپنی بقاءکی جنگ لڑتے ہوئے کسی حد تک بھی جائیں گے اسی طرح کی صورت حال سے آصف زرداری بھی دوچار ہیں جب کہ تحریک انصاف سمیت باقی سیاسی جماعتیں اپنے اپنے اراکین کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ دولت کی اس ریل پیل میں ان کے اراکین کہیں انہیں دھوکہ دیکر مخالف کیمپ میں نہ چلیں جائیں اسی وجہ سے سینیٹ کے الیکشن کے حوالے سے ہر جگہ بے یقینی کی سی کیفیت طاری ہے اس تمام تر صورت حال میں ملک کے حساس اداروں کی پوزیشن کیا ہے۔۔۔۔؟ یہ بھی معنی خیز ہے یقیناً ان کی بھی اس بدلتی صورتحال پر گہری نظر ہو گئی اور وہ بھی اس میں اپنا حصہ ضرور ڈالیں گے۔
سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کھلی ہارس ٹریدنگ کس قانون اور آئین کی زد میں آتی ہے یا نہیں؟؟؟ اور اس موقع پر اگر کسی نے سپریم کورٹ پر دستک دی تو کیا سپریم کورٹ اس معاملے پر ازخود نوٹس لے گی؟ یہ وہ تمام تر صورتحال ہے جس کا آنے والے دنوں میں سامنا کیے جانے کا امکان ہے، کچھ بھی ہے، سینیٹ کے موجودہ انتخابات بہت ہی زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ سی پیک کی طرح سے سینیٹ کے انتخاب بھی گیم چینجر ثابت ہوں گیں جس سے ملکی سیاست کا نقشہ بھی بدل جائے گا۔ ملک میں ایک نئی سیاست کا آغاز ہو گا۔ سینیٹ کے الیکشن اور اس کے نتائج یا تو ملک سے کرپشن قومی خزانے کو لوٹنے والوں کی تابوت میں آخری کیل ثآبت ہوں گے یا پھر قومی خزانے کے لوٹنے والوں کے لئے راہیں ہموار کرنے کا باعث بنے گے۔ اسی وجہ سے سینیٹ کے الیکشن کی اہمیت روز بروز بڑھتی جارہی ہے اور اس الیکشن کے شفافیت کا تقاضہ ہے کہ اس میں ہونے والی ہارس ٹریڈنگ کو ہر حال میں روکی جائے اور یہ ذمہ داری ملک کی سب سے بڑی عدالت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اٹھ کر اپنا آئینی اور قانونی حق استعمال کرتے ہوئے اسے روکے ہر اس ایم پی اے کے خلاف کارروائی کرے جو دولت لے کر اپنا ووٹ دوسروں کی جھولی میں ڈالتا ہے اس سلسلے میں سیکورٹی فورسز اور حساس ادارے بھی اپنا کردار ادا کرتے ہوئے سینیٹ کے الیکشن کو شفاف بنائے اسی میں پاکستان کی فلاحی اور اس کی سلامتی مضمر ہے۔ (آمین)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں