نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 404

شکریہ ٹرانسپیرنسی

ہم ایک ٹرانسپیرنٹ دور میں سانس لے رہے ہیں ایک اس طرح کا دور جس میں چیزیں اور واقعات آر پار دکھائی دے رہے ہیں ایسے میں ان لوگوں کا کام انتہائی مشکل ہو گیا ہے جو جھوٹ اور مکر و فریب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے اسے دانش اور عقل و فہم کا نام دیتے ہیں۔ جیسے ڈپلومیسی، سیاسی، صحافت، تجارت اور وکالت وغیرہ۔ اس لئے کہ اب جھوٹ گھڑنا جہاں مشکل ہو گیا ہے وہیں اس جھوٹ کو زیادہ وقت تک برقرار رکھنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہوگیا ہے اور جو لوگ اب بھی اسی ہتھیار کا استعمال کررہے ہیں وہ نہ صرف بُری طرح سے بے نقاب ہو رہے ہیں بلکہ تیزی کے ساتھ اپنے انجام کی جانب بھی بڑھ رہے ہیں۔ میں جو لکھ رہا ہوں اس کی منظرکشی کرکے جب ملک اور بیرون ملک ہونے والے واقعات کا جائزہ لیں تو آپ پر اصلیت واضح ہو جائے گی۔ یہاں سننے، دیکھنے اور پڑھنے کو وہ نہیں ملتا جو زمینی حقائق سے مطابقت رکھتا ہو۔ زمینی حقائق کچھ اور کہہ رہے ہوتے ہیں جب کہ اس سے متعلق جاری کردہ فرمان فرمائشوں اور خواہشات کے مجموعہ کی شکل میں کچھ اور کہہ رہا ہوتا ہے اس لئے اس طرح کا جھوٹ سے آراستہ لیبل زیادہ عرصہ تک زمینی حقائق پر مبنی پراڈکٹ پر چسپاں نہیں رہ سکتا۔ ہمارے ملک کے سیاستدان اور صحافی ان دنوں اسی صورتحال سے نبرد آزما ہیں اس لئے ان کا کوئی ایک بھی سودا بک نہیں رہا کیونکہ وہ حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے۔ زیادہ سودا خالی ڈبوں یعنی مخالفت برائے مخالفت کی شکل میں فروخت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور ٹرانسپرنسی کی وجہ سے لوگوں کو معلوم ہو گیا کہ یہ ڈبے خالی ہیں اس لئے انہیں خریدنا تو کجا کوئی ہاتھ بھی لگانے کو تیار نہیں ہوتا۔
ہمارے سیاستدان اور صحافی احساس برتری کی اس بدترین بیماری میں مبتلا ہو چکے ہیں کہ وہ ابھی تک اس حقیقت کو ماننے کو تیار ہی نہیں کہ وقت اور حالات بدل چکے ہیں۔ لوگ اب وہ نہیں رہے جو ان کے رات کو دن کہنے پر اسے دن ہی خیال کرتے تھے، اب لوگ شفافیت کے عادی ہو چکے ہیں، وہ مکرو فریب سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں داخل ہو چکے ہیں اور ان ہی لوگوں، سیاستدانوں اور صحافیوں کے ساتھ جڑ رہے ہیں جو حقیقت پسند ہیں، چاہے حقیقت کسی طرح کی بھی کیوں نہ ہو؟؟ وہ اب حقیقت کے ساتھی اور اس کے پیرو کار ہو چکے ہیں۔ وہ ملکی نامور سیاستدانوں نوازشریف، زرداری، فضل الرحمن، عمران خان اور فوج کی حقیقت اچھی طرح سے واقف ہو چکے ہیں انہیں کشمیر کی اصلیت سے بھی آگاہی ہو چکی ہے اور وہ مہنگائی کے اسباب سے بھی باخبر ہوچکے ہیں۔ وہ جانتے ہیں عمران خان کی اصلیت اور اس کی پارٹی کی حقیقت، وہ پاکستان اور اس کے تقاضوں اور خود اپنی ذمہ داریوں کو بھی جانتے ہیں۔ وہ جمہوریت اور ملک کے عدالتی نظام سے بھی اچھی طرح سے باخبر ہیں کہ یہاں کوئی بھی کام رشوت کے بغیر ممکبن نہیں۔ وہ رشوت کی اہمیت سے بہت اچھی طرح سے واقف ہیں۔ اس لمبی چوڑی تمہیدی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ اب کسی کو آسانی کے ساتھ دھوکہ دینا ممکن نہیں رہا۔ اس لئے سیاستدانوں اور صحافیوں کو اپنا طریقہ واردات تبدیل کرنا ہوگا۔ اب ایک زرداری سب پر بھاری، جمہوریت کو خطرہ، آزادی اظہار رائے کو خطرہ اور مذہب کو خطرہ کا نعرہ اسی طرح سے پھٹ چکا ہے جس طرح سے طبقاتی سماج اور استحصال کا نعرہ فلاپ ہوچکا ہے۔ اب یہ نعرے اپنی تاثیر کھو چکے ہیں اس لئے سیاستدانوں اور صحافیوں کو بلا مجبوری نا چاہتے ہوئے یا دل پر جبر کرتے ہوئے حالات سے سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔ انہیں حقیقت پسند بن کر زمینی حقائق کی نمائندگی کرنا ہوگی اور زمینی حقائق کو مزید اُجاگر کرنا ہوگا ورنہ اس کے بغیر انہیں قوم قبول نہیں کرے گی اور نہ ہی ان کی دکانداری چل سکے گی۔ اسی طرح سے سیاستدانوں کو بھی جمہور کے بغیر جمہوریت کے مزے لوٹنے کے سلسلے کو اب ترک کرنا پڑے گا اور عملی طور پر جمہور یعنی عوام کو اقتدار میں شامل کرکے ان کے مسائل کو اپنے مسائل سمجھ کر حل کرنا ہوگا اور اس کے لئے قانون سازی کرکے مسائل کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا جب کہ ملک کے سلامتی کے اداروں کو اپنے یا اغیار کی خوشی کے لئے تنقید کا نشانہ بنانے سے نہ صرف گریز کرنا پڑے گا بلکہ اس کے لئے قانون سازی بھی کرنا ہو گی اور ہر ادارے اور پورے ملک کے عوام کو قانون کا تابعدار بنا کر قانون کی حکمرانی کو عملی طور پر قابل عمل بنانا ہوگا۔
اب آخر میں وزیر اعظم عمران خان سے اتنی سی گزارش ہے کہ وہ یا تو اپنے آستین ہی کاٹ ڈالیں یا پھر اُسے دن میں دو تین بار ضرور جھاڑا کریں اس لئے کہ ان کی آستینوں میں اس طرح کے عناصر نے پناہ لے لی ہے جو ان کے مشن کے لئے بالخصوص اور پورے ملک کے لئے بالعموم زہر قاتل کا کردار ادا کررہے ہیں وہ ”گھر کے بھیدی لنکا ڈھائے“ والا کردار انتہائی خوبصورتی سے ادا کررہے ہیں ان کی موجودگی میں عمران خان کو اپنا مشن پورا کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو جائے گا۔ جو ہر موقع پر کوئی نہ کوئی بدشگونی کرتے رہے ہیں اب جس طرح کی نئی نئی قانون سازیاں نیب کے قوانین میں کی جارہی ہیں وہ ایک طرح سے نیب کے ناخن تراشنے کے مترادف ہے اور ایسے لگ رہا ہے کہ جو کام مسلم لیگ ن اور زرداری اپنے دور اقتدار میں نہ کرسکے تھے وہ اب عمران خان کے اس دور میں اپنے ان پیاروں سے کروا رہے ہیں جو کسی نہ کسی طرح سے عمران خان کے قافلے میں شامل ہو چکے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کو چاہئے کہ اپنے حلقہ احباب کو مختصر سے مختصر کریں اور ان میں موجود غداروں کو باہر نکالیں جو اپوزیشن کے نمائندوں کا کردار ادا کررہے ہیں اور وہ کشمیر کاز سمیت مہنگائی اور دوسرے معاشی محاذ پر عمران خان کے لئے مشکلات کھڑی کررہے ہیں۔ زمینی حقائق تو اس طرح سے ہیں لیکن وزیر اعظم کو کچھ اور بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ اس لئے عمران خان کو بھی اب مزید فہم و ادراک سے کام لے کر فیصلے کرنا چاہئے اور خود احتسابی کے عمل کو مزید تیز کرنا چاہئے تانکہ ان کی صفوں میں موجود گندے انڈے اپنی موت آپ مر جائیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں