امریکہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے کارنامے 152

صحافت۔ سیاست پاکستان!

پاکستان کی سیاست اور صحافت ایسی ہے کہ جس کی نظر پورے کرہ ارض پر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔ ایک اس طرح کی صحافت اور سیاست جو پوری طرح سے اخلاقی قدروں سے عاری ہے اگر یہ کہا جائے کہ ان میں اخلاقی قدروں کا شائبہ تک نہیں تو غلط نہ ہوگا۔ میرا یہ الزام نہ تو سارے سیاستدانوں پر ہے اور نہ ہی سارے صحافیوں میڈیا ہاﺅسز یا پھر اینکرز پر ہے یقیناً ان میں سے کچھ بہت ہی اچھے اور انسان دوست بھی ہیں لیکن ان کا تناسب اتنا کم ہے کہ انہیں موضوع بحث بنانا نہ صرف مشکل بلکہ بعض اوقات ناممکن بھی ہو جاتا ہے۔ اتنی لمبی چوڑی تمہید باندھنے کی ضرورت یا نوبت مجھے اس لئے پیش آرہی ہے کہ ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال نے ملک کے انتظامی ڈھانچے بلکہ ملک کی بنیادوں تک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ملک کے سیاسی میدان میں حرام خوروں سرکاری خزانہ لوٹنے والوں اور اصول پرست ایماندار اور محب الوطن سیاستدانوں میں بظاہر جمہوری ہتھیاروں کے ذریعے ایک جنگ چھڑ چکی ہے جس میں اس وقت ملک سے لوٹے گئے پیسے کو ایندھن بنا کر استعمال کیا جا رہا ہے۔
ایک جمہوری حکومت کو مانا کہ جمہوری طریقے سے ہی گرایا جا رہا ہے مگر اس سارے عمل میں خود سیاستدان دوسرے سیاستدانوں کے ضمیر کو خرید کر انہیں سیاسی لوٹا بنا رہے ہیں۔ سر عام تعزیرات پاکستان کے دفعہ 406 یعنی امانت میں خیانت کا جرم کیا جارہا ہے جس پارٹی کے نام پر ووٹ لے کر جو لوگ اراکین پارلیمنٹ بننے میں کامیاب ہو گئے اب وہ انفرادی طور پر اس کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنے حلقے کے عوام یعنی اپنے ووٹرز اور اپنی پارٹی سے غداری کررہے ہیں ان کے پاس ووٹ یا ان کی وہ نشست پارٹی کی امانت ہے مگر وہ اب زر کی چمک دمک میں اس امانت میں خیانت کررہے ہیں۔ پوری قوم اپنی آنکھوں سے جمہوریت کی رسوائی کا یہ تماشہ دیکھ رہی ہے مگر ہمارے پاکستان کی مخصوص صحافت اور میڈیا ہاﺅسز کو اس طرح کے حرام خور سیاستدانوں کی یہ بددیانتی اور جمہوری اقدار کا خون بھی ان کا کارنامہ دکھائی دے رہا ہے،
یہ ہی وجہ ہے کہ وہ اس طرح کے بے ضمیر اور گھٹیا سیاستدانوں کو ہیرو بنا کر پیش کررہے ہیں اس طرح سے کرکے وہ میڈیا ہاﺅسز نہ جانے کس طرح کا پیغام قوم کو دنیا چاہتے ہیں؟ اس طرح سے کرکے تو وہ دسرے بکاﺅ مال سیاستدانوں کو بھی ایک طرح سے موٹیویٹ کررہے ہیں کہ وہ بھی اپنی پارٹی اور اپنے حلقے کے عوام کے ساتھ دھوکہ کریں۔ امانت میں خیانت کریں یعنی وہ بھی جمہوریت کو تباہ و برباد کرنے اور اسے سرعام رسوا کرنے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں یہ سب ”پلوجرنلزم“ نہیں تو اور کیا ہے؟ بہرحال سیاسی میدان میں جو بدی اور نیکی کی جنگ اس وقت چل رہی ہے اس میں سیاست اور صحافت کے گندے اور بدبودار انڈے بہت ہی بری طرح سے بے نقاب ہو گئے ہیں کیونکہ دور بدل گیا۔ سوشل میڈیا نے پرنٹ اور مین اسٹریم میڈیا کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک کر اسے پوری طرح سے عریاں کردیا ہے اب ملکی عوام میں آگئی بہت زیادہ آچکی ہے اور وہ میڈیا کے غلط اور پلانٹڈ پروگراموں کے دھوکے میں نہیں آرہی ہے بلکہ سب کچھ اب واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ کونسا سیاستدان اس وقت صحیح چل رہا ہے اور کونسا صحافی یا اینکر کہاں سے لفافہ لے کر اپنی دم ہلا رہا ہے اب نہ تو عوام کو دھوکہ دینا آسان رہا اور نہ ہی حرام کھا کر خود کو ایماندار اور اصول پرست ظاہر کرنا ۔ یہ ٹرانسپرنسی کا دور ہے ہر شے ہزار پردوں میں چھپ کر ہونے کے باوجود کھل کر بمعہ ثبوتوں کے آجاتی ہے۔ اب غلط کام کرکے خود کو پارسا ثابت کرنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہو گیا ہے، سیاسی جنگ جاری ہے، دعا ہے کہ جو کچھ بھی ہو، ملک اور ملکی عوام کے لئے اس میں بہتری ہو، ملک کی آزادی اور خودمختاری پر کوئی آنچ نہ آئے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں