نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 413

عمران خان مشکل میں

عمران خان کے بیک وقت امت مسلمہ، کشمیر اور تیسری دنیا کے ایک کامیاب ترین سفیر بننے کے بعد پاکستان میں بالخصوص اور باقی ماندہ دنیا میں بالعموم ایک ہل چل سی مچ گئی ہے اور اندرون خانہ نظر نہ آنے والے کھیل کی شروعات ہو چکی ہے۔ مقناطیس کو ہلا کر لوہے کے ٹکڑوں کو ایک جگہ اکھٹے کرنے کے مصداق پاکستان اور پاکستان سے باہر اس طرح کے تمام عناصر میں رباطے تیزی کے ساتھ بڑھ رہے ہیں جو پاکستان اور اسلام کے خلاف ہیں۔ انہیں ایک دوسرے کے قریب لانے کے لئے دولت کو پانی کی طرح سے بہانے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ اس مقصد کے لئے دہشت گردی بھی شروع کروا دی گئی ہے اور اب یہ سلسلہ دھیرے دھیرے بڑھتا جائے گا۔ عمران خان کی جنرل اسمبلی میں طویل ترین تاریخی خطاب امت مسلمہ کشمیر اور تیسری دنیا کے ممالک کے لئے کچھ کرنے کا باعث بنے یا نہ بنے مگر خود عمران خان اور ان کی حکومت کے لئے خطرے کی علامت ضرور بن گیا ہے۔ ان کا یہ تاریخی خطاب پاکستان کی دم توڑتی اپوزیشن میں جان ڈالنے اور انہیں متحرک کرنے اور اسمبلی کے نشست سے محروم پاکستان کے سب سے چھوٹی مذہبی پارٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں کی قیادت کرنے کا باعث ضرور بن گیا ہے۔ خلائی مخلوق بمقابلہ خلائی مخلوق یا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ بمقابلہ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ والی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ یہ سارے اشارے عمران خان کے خطاب سے خفگی اور اس پر کئے جانے والے ردعمل کی عکاسی کررہے ہیں۔
یہ جنرل اسمبلی میں عمران خان کی تقریر پر پانچ بار بجنے والی تالیوں کا بھی جواب ہے اور اس طرح سے لگ رہا ہے جیسے انڈیا کی ایک ارب کی مارکیٹ مغرب کی انسانیت پر حاوی ہو گئی ہے۔ انسانیت اور انسانی حقوق کی پرچار کرنے والی عالمی دنیا ذاتی مفاد کو اجتماعی مفاد پر فوقیت دینے کے لئے پر تول رہی ہے انہیں آر ایس ایس ہندو انتہا پسند تنظیم میں نازی ازم اس لئے نظر نہیں آرہا کہ یہ تنظیم یہودیوں کے خلاف نہیں بلکہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف متحرک ہے اور خود آر ایس ایس کی تشکیل سے لے کر اسے متحرک کروانے تک میں کسی نہ کسی شکل میں خود ”موساد“ کا ہاتھ رہا ہے اس لئے عمران خان کے بار بار آر ایس ایس کا نام لینے اور بھارتی وزیر اعظم مودی کو اس دہشت گرد تنظیم کا لائف کارکن قرار دینے سے جہاں ہندوستان کے مسلمانوں اور عیسائیوں کے علاوہ مودی کے مخالف سیاستدانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی وہیں اس تابڑ توڑ بیان یا خطاب سے یہودیوں اور امریکہ سمیت مغرب پر کوئی خاص اثر نہیں ہوا بلکہ مغرب کے اپنے چہرے پر پڑے انسانیت اور انسانی حقوق کے تحفظ کا جو پردہ پڑا تھا اسے سرکارنے پر مغرب کو بھی عمران خان کی یہ حرکت اچھی نہیں لگی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ عمران خان کے اس تاریخی خطاب پر ابھی تک کوئی مثبت اثر تو شروع نہیں ہوا البتہ اس کے ردعمل میں خود عمران خان اور ان کی حکومت کے خلاف ایک ہل چل سی ضرور مچ گئی ہے۔ اس طرح سے لگ رہا ہے جیسے جیلوں میں قید سیاستدانوں کو پیغامات پہنچا دیئے گئے ہیں جس کی وجہ سے ڈیل کے لئے بھاگ دوڑ کرنے والے بھی دوسری طرح کی باتیں کرنے لگے ہیں ان میں ایک طرح سے تازگی آگئی ہے اور انہیں یہ یقین ہوگیا ہے کہ ان کے بُرے دن ختم ہونے والے ہیں۔ مجھے اس موقع پر بابائے اُردو مولوی عبدالحق مرحوم کا وہ تاریخی قول شدت کے ساتھ یاد آرہا ہے کہ ”انسان کی برائیوں کے ساتھ ساتھ بعض اوقات ان کی اچھائیاں بھی انہیں ڈوبنے کا باعث بنتی ہیں“ کچھ اسی طرح سے عمران خان کے ساتھ کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ ضروری نہیں جو میں لکھ رہا ہوں ویسا ہی ہو اور میری خود اپنی ذاتی خواہش بھی ایسی نہیں کہ اس طرح سے ہو، لیکن تازہ ترین صورتحال سے واقف کار لوگوں کا اندازہ ہے کہ اب اس طرح سے ہونے جارہا ہے۔ ملیحہ لودھی کی اقوام متحدہ کے مستقل مندوب کی حیثیت سے تبدیلی اس سلسلے کی ایک کڑی بتائی جاتی ہے۔ مودی نے اپنی جنگ ہنسائی کا بہت ماتم کیا ہے، اتنا ماتم کے وہ اجلاس کے بعد اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے ملے بغیر چلے گئے جو سفارتی آداب کے خلاف ہے۔ جو لوگ ان کے باڈی لینگویج کو دیکھ چکے ہیں ان کا کہنا ہے کہ مودی عمران خان کی اس تقریر سے پانی پانی ہو گئے تھے۔ پوری دنیا مںی آر ایس ایس کی شکل میں ہندو انتہا پسند دہشت گرد کے طور پر سامنے آگئے اور خودکش دھماکوں کے بانی کے طور پر متعارف ہوئے اس طرح سے ان کے پرامن قوم ہونے کا روپ بھی عمران خان نے اتار لیا۔ غرض تاریخی خطاب بھی ہو گیا اور اس کے ردعمل بھی آنا شروع ہو گئے لیکن ابھی تک وہ نہیں ہو رہا جس کے لئے یہ خطاب کیا گیا تھا۔ عمران خان دنیا کے سب سے بڑے تجارتی مرکز پر اپنا پراڈکٹ بیچنے میں کامیاب تو ہوگئے لیکن انہیں ابھی تک پے منٹ نہیں ملی۔ ملے گی بھی کہ نہیں؟ کسی کو نہیں معلوم؟ وزیر اعظم عمران خان اور دوسرے پالیسی سازوں کو چاہئے کہ اپوزیشن پارٹیز کی سلگتی ہوئی چنگاریوں کو فوری طور پر بجھانے کی کوشش کریں اس لئے کہ دشمن اسے ہوا دے کر آگ کا شعلہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں اور اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر سب کچھ جل کر خاکستر ہو جائے گا اس لئے اب سب سے زیادہ توجہ سیاسی جماعتوں میں پائی جانے والی بے چینی کے خاتمے پر صرف کی جائے اور دوسری جانب ملکی عوام کو مہنگائی سے ریلیف دینے کے لئے انقلابی اقدامات کئے جائیں اور پاکستانی میڈیا کو کسی طرح سے اپوزیشن کے نرغے سے نکالنے کی کوشش کریں تاکہ وہ ملکی عوام میں مایوسی پھیلانے کا سلسلہ بند کروائیں۔ یہ ہی وقت اور حالات کا تقاضہ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں