امریکہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے کارنامے 162

عمران خان کو جھکانا ہے یا ہٹانا ہے؟

پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ پاکستان کو معاشی جنگ کے ذریعے دوبارہ سے غلام بنانے پر کام شروع کردیا گیا ہے اور ایسا کرنے والوں کا پہلا ٹارگٹ عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہے۔ ملک میں موجودہ سیاسی افراتفری ہنگامی صورتحال کی وجہ بظاہر مہنگائی اور حکومت کی بدترین انتظامی صورتحال ہے لیکن اس کے باوجود ان سب وجوہ کے پیچھے اصل وجہ غیر ملکی طاقتیں ہیں جنہیں پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی اور خودمختاری ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ وہ ہر حال میں پاکستان کو اپنا مطیع اور اس کی خارجہ پالیسی اور خودمختاری کو اپنے پاس گروی رکھنا چاہتے ہیں ان کی خواہش ہے کہ پاکستان وہ نہ کرے جو وہ چاہتا ہے بلکہ پاکستان وہی سب کچھ کرے جو ہم یعنی (عالمی طاقتیں) چاہتی ہیں۔ اسی مقصد کے لئے جنگ کا طبل بجا کر ایک دم سے مہنگائی کو میدان جنگ بنا کر سارے وفاداروں کو ان کے جیالوں سمیت جنگ کے اس میدان میں اتار دیا گیا ہے لیکن کیا ہوا ”مدعی لاکھ بُرا چاہے تو کیا ہوتا ہے، وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے“، کرکٹ میچ ہوا اور اس کے نتیجے نے عالمی طاقتوں سمیت ان کے وفاداروں کے غبارے سے ہوا نکال دی، بڑی مشکوں سے بہت بڑی ریاضت کے بعد وہ ملکی عوام کو حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکالنے میں کامیاب ہوگئے تھے لیکن پاکستان کے ہاتھوں روایتی حریف کی شکست نے سارے کرے کرائے پر پانی پھیر دیا اور حکومت کے خلاف احتجاج کرنے کے لئے گھروں سے نکلنے والے عمران خان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے گھروں کو لوٹے اور مسلم لیگ ن سمیت دوسرے ان تمام سیاسی جماعتوں کو منہ کی کھانی پڑی جو بڑی امید کے ساتھ عمران خان کی حکومت کا خاتمہ کرنے نکلے تھے۔ ویسے بھی انڈیا کی ہار سے پاکستان کے بعض سیاسی جماعتوں کو اتنی تکلیف ہوتی ہے جیسے ان کے ہاں کسی کی موت ہو گئی ہو یقیناً اس صورتحال میں پاکستان کے کرکٹ ٹیم کے ہاتھوں انڈین کرکٹ ٹیم کی تاریخ ساز شکست سے انہیں بہت ہی زیادہ تکلیف پہنچی ہو گی ایک تو انڈیا کو شکست ہونا ان کے لئے ناقابل برداشت ہے۔ دوسرا بہت ہی غلط وقت میں یہ شکست ہوئی ہے۔ جس سے ان کا گرم کردہ محاذ جلد ہی سرد پڑ گیا اور اس سے انہیں مایوسی ہوئی لیکن اس کے باوجود وہ دل پر پتھر رکھ جبر کرتے ہوئے میڈیا پر پاکستانی ٹیم کو مبارکباد پیش کرتے رہے۔
پاکستانی سیاستدانوں کو کچھ اور کرنا آئے یا نہیں لیکن انہیں منافقت اور ریاکاری میں تو بہت ہی عبور حاصل ہے جس کے لئے انہیں کسی یونیورسٹی سے ڈگریاں لینے کی بھی ضرورت نہیں۔ بات پاکستان کو گھیرنے کی ہو رہی تھی جس کی ابتداءتو اسی روز سے کرلی گئی تھی جس روز ایک فاتح کی حیثیت سے پاکستان کے سب سے بڑے حساس ادارے کے بڑے افسر کابل میں جلوہ افروز ہوئے تھے ان کا وہاں جانا ہی وہ توپ کا گولہ تھا جو عالمی طاقتوں پر جا کر گرا اور انہیں اپنی بچھائی جانے والی بساط الٹتے ہوئے نظر آئی۔ ایک تو افغانستان سے ان کا مقصد حاصل کئے بغیر نکلنا اور اس سے بڑھ کر خود افغانستان کا پکے ہوئے پھل کی طرح سے اس ملک کی جھولی میں جا کر گر جانا ہے جس کے خلاف افغانستان کو استعمال کرنا تھا۔
یہ وہ وجوہات ہیں جس سے عالمی سیاست کی پوری کی پوری بساط الٹ گئی اب ساری توپوں کا رخ ہی پاکستان کی جانب موڑ دیا گیا ہے اب پاکستان کو نکیل یعنی مطیع بنائے بغیر عالمی سیاست یا سیاسی منظرنامہ تبدیل ہی نہیں ہو سکتا۔ پاکستان سے اس کے آزادانہ خارجہ پالیسی اختیار کرنے کے حق کو چھینے بغیر اب کام نہیں چل سکتا۔ پاکستان کو وہی کرنا چاہئے جو سپرپاور چاہتا ہے یہ اس وقت ایک طرح سے انا کا مسئلہ بن گیا ہے اور اسی کے گرد پالیسی ساز اس وقت پاکستان کے خلاف پالیسیاں بنا رہے ہیں ان کے پاس عمران خان کو جھکائے یا ہٹائے بغیر کوئی اور آپشن ہی نہیں ہے۔ اسی مقصد کے لئے پاکستان کے مفاد پرست میڈیا اور اپوزیشن پارٹیوں کو چابی بھر دی گئی ہے اور وہ اس وقت مہنگائی کو جواز بنا کر حکومت کو گھر بجھوانے کے لئے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
ایک طرح سے حکومت کو بلیک میل کرکے اپنے اصل آقاﺅں کو خوش کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔
خدا کا شکر ہے کہ عمران خان کو کچھ عقل آئی، دیر آئے درست ہے کہ صداق انہوں نے فوج کے منتخب کردہ آئی ایس آئی کے چیف کے تقرری کا نوٹیفکیشن بالاخر جاری کر ہی دیا یعنی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کو ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی تعینات کردیا ہے۔ یہ وہ تلخی تھی یا وہ بجھتی ہوئی چنگاری تھی جسے ملک کی اپوزیشن ہوا دے کر آگ کا شعلہ بنانے کی کوشش کررہی تھی تاکہ عمران خان کی حکومت اس سے جل کر تباہ و برباد ہو جائے مگر افسوس کے ایسا نہ ہو سکا اور فوج اور حکومت ایک بار پھر پہلے سے زیادہ مضبوط انداز میں ایک پیج پر آگئی جس سے ملکی و غیر ملکی سارے مخالفین کو منہ کی کھانی پڑی ہے مگر اس حکمت عملی پر حکومت اور فوج کو خوش ہونے کے بجائے خود پر ہونے والے دوسرے ممکنہ حملوں سے بچانے کی لئے پہلے سے منصوبہ بندی کرنے پر توجہ دینی چاہئے اور اب یہ ساری ذمہ داری نئے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کی ہے کہ وہ کس طرح سے ملک کو ان بیرونی چالوں اور سازشوں سے بچاتے ہیں جو پاکستان کے دشمن خود پاکستانی سیاستدانوں کے ذریعے وطن عزیز کے خلاف کرتے رہےت ہیں۔ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں ہونے والے دہشت گردی کی تازہ ترین وارداتیں اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں اور اس میں بالواسطہ یا براہ راست طور پر وہی سیاسی پارٹیاں ملوث ہو سکتی ہیں جو افغانستان کے خفیہ ادارے این ڈی ایس کے پے رول میں رہی ہیں۔ جن میں قوم پرست جماعتیں بھی شامل ہیں جنہیں اب اپنے مذموم مقاصد کے لئے افغانستان کی سرزمین استعمال کے لئے نہیں مل رہی ہے تو وہ بھارت یا کسی دوسرے مقام سے یہ وارداتیں کررہے ہیں جنہیں ناکام بنانے کے لئے پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کو خیبرپختونخواہ اور بلوچستان پولیس کے ساتھ مل کر آپریشن کرنا ہو گا اور خاص طور سے ان سیاسی جماعتوں پر کڑی نظر رکھنی ہو گی جن کے دل افغانستان اور دوسرے دشمن ملکوں کے لئے تڑپتے ہیں جنہوں نے کبھی دل سے پاکستان کو تسلیم ہی نہیں کیا ہے مگر پاکستان کی پارلیمنٹ میں جا کر اس فورم کو خود پاکستان کے خلاف استعمال کرنے سے بھی باز نہیں آتے اب یہ ساری ذمہ داری آئی ایس آئی کے نئے ڈی جی پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اس چیلنج کو کس طرح سے لیتے ہیں اور کس طرح سے وطن عزیز کی خود مختاری اور آزاد خارجہ پالیسی کو برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں کس طرح سے میر جعفر اور میر صادق نما بعض پاکستانی سیاستدانوں کے خلاف وہ اپنی کارروائیوں کی ابتداءکرتے ہیں اسی میں پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری مضمر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں