نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 354

عمران خان کی مشکلیں

موجودہ حکومت کے مشکلات میں روز بہ روز اضافے سے مجھ پر دو باتیں روز روشن کی طرح سے عیاں ہو چکی ہیں، ایک تو یہ کہ موجودہ حکومت دُرست سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔ دوسری یہ ہے کہ پاکستان میں اس طرح کی کوئی حکومت مشکل سے ہی کامیاب ہو سکتی ہے جو ملک کے غریبوں کے لئے کچھ کرنے کا عزم رکھتی ہو جو ملک سے کرپشن کا صفایا کرنا چاہتی ہو جو قانون کی حکمرانی قائم کرنا چاہتی ہو جو حقیقی معنوں میں ریاست اور اس کے رہنے والوں سے مخلص ہو۔
آج حکومت کو جن مشکلات کا سامنا ہے وہ کس کے پیدا کردہ ہیں۔ ہر کوئی اس سے واقف ہیں جو جتنا زیادہ اس سے باخبر ہے وہ ہی پورے شدومد کے ساتھ حکومت کی مخالفت کررہا ہے حالانکہ اپنے زندہ ضمیری کے باعث انہیں بھی اس کا ادراک و احساس ہے کہ وہ چور مچائے شور کے مصداق غلط اور بے بنیاد جواز کے تحت اس حکومت کی مخالفت کررہے ہیں لیکن پھر وہ یہ سوچتے رہ جاتے ہیں کہ وہ کیا کریں؟ ایسا نہیں کرتے تو ان کی سیاست ختم ہو جاتی ہے۔ وہ سیاسی طور پر خود کو زندہ رکھنے کے لئے ایک ایسی حکومت کی مخالفت کررہے ہیں جو کسی اور کا نہیں خود ان ہی کا گند صاف کررہی ہے بقول خواجہ آصف کے ”کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیاءہوتی ہے“۔ جو شاید ان مافیاز میں نہیں ہے جو موجودہ حکومت کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ چکے ہیں۔ موجودہ حکومت کی مخالفت کرنے والے سب کے سب اپنے بقاءکی جنگ لڑ رہے ہیں۔ موجودہ حکومت کا ہر نیا روز اپوزیشن جماعتوں اور ان کی بغل بچہ بیوروکریسی کو موت کے منہ میں دھکیلنے کا باعث بن رہا ہے، موجودہ حکومت کا ہر فلاحی منصوبہ اور اس کی شروعات اپوزیشن جماعتوں کے لئے پریشانی کا باعث بن رہا ہے۔ مافیاز اپنے میڈیا کے ذریعے بقول ان کے پوری طرح سے صبح و شام حکومت کی چھترول کررہے ہیں لیکن اس کے باوجود عمران خان تھکنے یا ہمت ہارنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے ہر طرح کے کارڈ استعمال کرکے حکومت کو پریشان کیا جارہا ہے۔ خود حکومتی کشتی میں جہانگیر ترین کے خلاف حکومتی سطح پر تحقیقات کروا کر شگاف ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے مگر ابھی تک حکومت نہ صرف برقرار ہے بلکہ رواں دواں بھی ہے اس وقت حکومت کو خطرہ زرداری اور شریف برادری سے نہیں بلکہ خود اپنی صفوں میں موجود غداروں سے ہے اور یہ خطرہ معمولی نہیں بلکہ بہت بڑا خطرہ ہے ایک مخلوط حکومت جتنی طاقت رکھتی ہے۔ عمران خان کئی بار اس سے تجاوز کرچکے ہیں۔ لچک میں رہنا عمران خان کی مجبوری ہے اور انہیں اپنے حکومت کو برقرار رکھنے کے لئے اپنے رویے میں لچک رکھنے اور حالات سے سمجھوتہ کرنے کا کڑوا زہر پینا پڑے گا۔ اس کے بغیر انہیں اپنی حکومت کو برقرار رکھنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہو جائے گا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بعض ریاستی ادارے عمران خان کے حکومت کی غیر مشروط طور پر آﺅٹ آف وے مدد کررہے ہیں۔ شاید اس لئے کہ ان کے پاس بھی عمران خان کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں ہے لیکن اس کے باوجود بھی جب بچانے والا ایک اور مارنے والے زیادہ ہو تو پھر کب تک؟ اس لئے ہر طرف سے عمران خان کو یہ ہی مشورہ دیا جارہا ہے کہ ہاتھ ہولے رکھو۔ جیو اور جینے دو کی پالیسی پر چلو۔
ایسا کرنا گرچہ عمران خان کے مزاج کے خلاف ہے مگر راج نیتی کے بھی اپنے ہی طور طریقے ہوتے ہیں جسے اپنائے بغیر اس پر سواری کرنا نہ صرف مشکل بلکہ نا ممکن ہے لیکن میرا اپنا ذاتی خیال ہے کہ اگر وقتی طور پر عمران خان حالات سے سمجھوتہ کر بھی لیتے ہیں تو وہ یہ سلسلہ زیادہ وقت تک برقرار نہیں رکھ سکیں گے۔ اس لئے کہ ایسا کرنا ان کی پوری آئیڈیالوجی کے خلاف ہوگا۔ جسے برداشت کرنا ان کے بس میں نہ ہوگا جس طرح سے سعودی عرب کے دباﺅ میں ملائیشیا کی اسلامی کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا دُکھ آج تک ان کا پیچھا کررہا ہے۔ انہیں بھی اس کا احساس تھا کہ اس کانفرنس میں شرکت نہ کرکے انہوں نے خود اپنے اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے اس لئے اس کے ازالے کے لئے اس کے بعد وہ دو روزہ دورے پر ملائیشیا گئے اس سے عمران خان کے مزاج کا اوران کی سوچ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ دوسرے روایتی سیاستدانوں کی طرح سے نہیں ہیں وہ اقتدار میں مال بنانے نہیں آئے ہیں وہ تو چور سیاستدانوں کی تجوریاں خالی کرکے غریب گھروں کے بجھے ہوئے چولہوں کو جلانے آئے ہیں مگر ان ہی مافیاز نے اس طرح سے مہنگائی کا جن چھوڑا کہ ملک کے غریب عوام ہی چیخ پڑے اور ہر کسی نے مہنگائی کا ذمہ دار عمران خان کو ٹھہرا کر ماضی کی حکومتوں کو فرشتہ کہنا شروع کردیا ایسا کرنے والے کوئی اور نہیں خود عمران خان کے آس پاس رہنے والے ان کے بہت زیادہ قابل اعتماد دوست ہیں جو دوست بن کر دُشمن کا کردار ادا کررہے ہیں اس موقع پر عمران خان کو یہ ضرور گنگنانا چاہئے کہ
دشمن نہ کرے دوست نے وہ کام کیا ہے
عمر بھر کا غم ہمیں انعام دیا ہے
عمران خان کے ان ہی دوستوں کو میں نے اپنے کسی کالم میں سانپ سے تشبیہہ دی تھی یہ تو سانپ سے بھی بدتر ہے۔
چلو اچھا ہوا کہ عمران خان پر ان دوست نما دشمنوں کی اصلیت تو کھل گئی، ورنہ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کے مصداق نہ جانے یہ اور کتنا نقصان پہنچاتے، وزیر اعظم عمران خان کو چاہئے کہ وہ اپنے پالیسی میں تھوڑی سی تبدیلی لائیں، فی الحال اپنی ساری توجہ مہنگائی کے خاتمے پر صرف کریں اور ملک کے بے روزگار پڑھے لکھے نوجوانوں کے روزگار کے مسائل حل کروائیں۔ اپنی توانائی مافیاز سے جنگ کرنے میں صرف کرنے کی بجائے ان ملکی عوام کے لئے کچھ کرنے پر خرچ کریں۔ جو ان سے بہت ساری امیدیں لگائے بیٹھے ہیں جو وزیر اعظم کی شکل میں انہیں اپنا مسیحا خیال کرتے ہیں۔ خدارا کچھ تو کیجئے۔۔۔۔ قوم تبدیلی کے نام پر بننے والی اس حکومت میں خود کو اور اس ملک کو سنورنے کا خواب دیکھ چکی ہے۔ ان کے خواب ٹوٹنے سے بچائیں چاہے آپ کو خود ہی کیوں نہ ٹوٹنا پڑے۔ عمران خان خدارا کچھ تو کیجئے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں