نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 192

غداری بمقابلہ حب الوطنی!

بڑا ہی مشہور معقولہ ہے کہ ”جو بوﺅ گے وہی کاٹو گے“ یعنی آپ اگر گندم کا بیج ڈالو گے تو گندم ہی کا پودا نکلے گا، کیلے کا نہیں۔۔۔ آج کل وطن عزیز میں کچھ اسی طرح کا ہو رہا ہے اس وقت پاکستان کی سیاست اس کے طرز حکمرانی اور سسٹم کو سمجھنے کے لئے سر کے بل کھڑے ہو کر دیکھنا پڑے گا، ہر شے ہی الٹ ہو گئی ہے، کل کے غدار آج محب الوطن ہو گئے ہیں اور کل کے محب الوطنوں پر غداری کا لیبل لگایا جا رہا ہے، ملک کے سلامتی کے اداروں کو سرعام برا بھلا کہنے والے اب ان کے ترجمان بن گئے ہیں۔ اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکیاں دینے والے اب دوسروں کو حب الوطنی کا بھاشن دینے لگ گئے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں پاکستان کی دلیر فوج ہی کے دم سے وطن عزیز آج تک قائم و دائم ہے ورنہ ملکی سیاستدانوں نے تو ملک کو دولخت کرنے کے بعد اسے مزید ٹکڑے کرنے کی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی، یہ فوج ہی ہے جو ملک کو اندرونی و بیرونی سازشوں سے تن تنہا لڑتے ہوئے محفوظ بنائے ہوئے ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس وقت ہماری فوج دشمنوں کے غیر معمول دباﺅ میں آچکی ہے۔ یہ وقت ملک کے سیاستدانوں کا آپس میں اتحاد اور یکجہتی کے مظاہرہ کرنے کا ہے مگر افسوس کے اس وقت جس طرح سے وطن عزیز دو حصوں میں بٹ چکا ہے اس کی نظیر اس کے قیام کے بعد سے اب تک ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔ یہ جو ملک پر حکمرانی کرنے والی پارٹیوں کا جس طرح والہانہ استقبال اندرون ملک اور بیرون ملک چور چور اور غدار غدار کے نعروں سے کیا جارہا ہے کیا ان کے اعمالوں کا نتیجہ نہیں ہے۔
کالم کے ابتدائی سطور میں جو کچھ لکھ چکا ہوں کہ ”جو بوﺅ گے وہی کاٹو گے“ جو کچھ ان سیاستدانوں نے اس ملک اور اس پر بسنے والے عوام کے ساتھ کیا یہ اس کا ہی ردعمل ہے، اور اب یہ اپنے خلاف شعور کی شکل میں اٹھنے والے عوامی غیض و غضب سے بچنے کے لئے ملک کے ان اداروں کو ڈھال کے طور پر استعمال کررہے ہیں جن اداروں کو بدنام کرنے اور جن کی جگ ہنسائی میں انہوں نے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی۔ بڑے ادب کے ساتھ میں اداروں کے کرتا دھرتاﺅں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ وہ تو کھوٹے اور کھرے میں تمیز کریں، وقت بدل چکا ہے، بساط الٹ چکی ہے، کل کے مجرم آج کے حکام بن گئے ہیں، جمہوری عمل نے سارے کا سارا نقشہ ہی تبدیل کرکے رکھ دیا ہے، پوری کی پوری غیر ملکی سازش اور میر جعفر اور میر صادق کے رسوائے زمانہ کرداروں نے کس خوبصورتی کے ساتھ جمہوری عمل میں پناہ لے لی ہے، اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے، اس طرح کے لٹیرے اور چوروں کے لئے سب سے خطرناک بات ملکی عوام یعنی جمہور کا خواب غفلت سے بیدار ہو جانا ہے، جنہیں ایک عرصے بعد اپنے قوم ہونے اور اپنے ووٹ کی طاقت اس کی عظمت اور عزت کا احساس ہو چکا ہے جس کا زندہ ثبوت لوٹوں کا روپوش ہو جانا ہے، وہ لوٹے جو اپنے ووٹروں کی توہین اور ان کے ساتھ بے وفائی دھوکہ دہی اور امانت میں خیانت کرنے کے عادی ہو چکے تھے، انہیں پہلی بار اپنے ووٹروں کی جانب سے اتنی سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کا اندازہ یا احساس نہیں تھا ورنہ وہ اس طرح کی غلطی یا حماقت نہ کرتے مگر وقت بدل گیا ہے، جمہوریت کی جمہور جاگ چکی ہے اور ان کے جوش و جذبہ و ولولے سے اب جمہوریت بھی اپنے اصل روح کے لحاظ سے متحرک ہو چکی ہے جس کی وجہ سے جمہوریت کو ریموٹ بنا کر کنٹرول کرنے والے ادارے بھی پریشان ہو گئے ہیں، انہیں بھی غیر متوقع صورتحال کا ان دنوں سامنا کرنا پر رہا ہے، ایک صحیح معنوں میں پاکستان میں بدلاﺅ آچکا ہے، بکاﺅ مال میڈیا کے ذریعے رائے عامہ تبدیل کرنے والوں کے چاروں خانے بھی چت ہو گئے ہیں، شفافیت کا عمل شروع ہو گیا ہے، قوم کے سامنے تمام چہرے بے نقاب ہو چکے ہیں، ادارں کا سیاست اور حکمرانی میں براہ راست یا بالواسطہ عمل دخل بھی قوم کے سامنے آچکا ہے اسی وجہ سے ملکی عوام اپنی حقیقی آزادی کے حصول کے لئے اس وقت میدان میں کود پڑے ہیں، جنہیں اب روایتی طریقے سے روکنا ممکن نہیں رہے گا، اس عوامی سیلاب کے آگے ڈالے جانے والے تمام بند بہالے جائیں گے اس وجہ سے حکمرانوں کو چاہئے کہ آنکھ بند کرکے عوام کے مطالبے کے آگے سر خم تسلیم کرلینا چاہئے، ملک میں عام انتخابات کا اعلان کرکے اپنی جانب بڑھنے والی اس موت سے خود کو بچانے میں ہی عافیت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں