امریکہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے کارنامے 466

فتنہ

ایک عرصہ تک میں فتنہ کے لفظی مفہوم کو سمجھنے سے قاصر تھا اس لفظ کو پڑھا بہت تھا لیکن اس کی روح کے مطابق اس کے مفہوم کو سمجھنے سے میں لاعلم تھا مگر اب جس طرح کی سیاسی صورتحال سامنے آرہی ہے اس سے لفظ ”فتنہ“ اُبھر کر سامنے آگیا ہے۔ مذہبی کارڈ ہمیشہ سے ہی پاکستانی سیاست کا نہ صرف مرکز رہا ہے بلکہ پوری سیاست ہی بالواسطہ یا براہ راست طور پر مذہب کارڈ کے گرد گھومتی رہی ہے۔ مذہب کارڈ کے استعمال سے اتنا نقصان سیاست کو نہیں پہنچا جتنا نقصان خود مذہب اسلام کو پہنچا ہے۔ ایک بہت بڑا سیاسی طبقہ بلاوجہ مذہب اسلام سے متنفر ہو جاتا ہے۔ ان دنوں جس مارچ کی دھوم مخصوص میڈیا نے مچا رکھی ہے اس مارچ کو بھی ایندھن مذہبی کارڈ کے ذریعے پہنچائی جارہی ہے اور اس طرح سے تاثر دیا جارہا ہے جیسے ملک میں ناموس رسالت کا خطرہ پید اہوگیا ہو جس کے نام پر ملک کے سادہ لوح عوام کو حکومت وقت سے متنفر کروانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ میں عمران خان کے اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کے تاریخی خطاب کے بعد ہی اس خدشہ کا اظہار کر چکا تھا کہ عمران خان کا یہ خطاب پاکستان کی دم توڑتی اپوزیشن کو بالخصوص اور فضل الرحمن کے مارچ کو بالعموم پروان چڑھانے کا باعث بنے گا اور میرا یہ خدشہ ہر لحاظ سط درست ثابت ہوتا جارہا ہے۔ اس طرح سے لگ رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے اسلام آباد مارچ کو پاکستان دُشمن قوتوں خاص طور سے بھارت نے اسپانسر کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے اور پاکستان کے مخصوص میڈیا کو بھی خاص ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمن کے اسلام آباد مارچ کو اس طرح سے کوریج کرے کہ یہ مارچ ہی پاکستان کا اتنا بڑا ایشو بن جائے کہ لوگ کشمیر ایشو کو بھول جائیں۔
پاکستان کا مخصوص میڈیا اسی لائن پر کام کرتے ہوئے پاکستان کی ”شہ رگ“ کو کاٹنے کی کوشش کررہا ہے جو ملک دشمن قوتیں اور پاکستانی اپوزیشن پارٹیاں مولانا کے اس اسلام آباد مارچ کو ”نو ستاروں“ کی تحریک سے تشبیہہ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ اس لئے کہ نو ستاروں کی تحریک کے سر پر امریکی ڈالروں کا سایہ اور اس کی پشت پر جنرل ضیاءالحق اور اس کا گروپ تھا اس لئے اس تحریک کے ذریعے بھٹو کی مضبوط ترین حکومت ختم کردی گئی تھی لیکن موجودہ تحریک پر ڈالروں کا سایہ تو ضرور ہے مگر اس کے نیچے زمین ہیں ہے اور یہ بھی پاکستانی سیاست کی تاریخ ہے کہ کوئی ایک بھی اپوزیشن کی تحریک پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی ہے تو پھر یہ کس طرح سی ممکن ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی خواہشات پر چلنے والی یہ تحریک کامیاب ہو۔ اس موجودہ سیاسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے تو میں یہ کہنے میں فخر محسوس کرتا ہوں کہ عمران خان پاکستان کے تمام سیاستدانوں سے نہ صرف زیادہ دانشمند، چالاک اور مفکر سیاستدان ہے بلکہ وہ دور اندیش بھی ہیں۔ عمران خان نے اقوام متحدہ کے 27 ستمبر کے خطاب سے ایک ماہ پہلے ہی جب آرمی چیف قمر باجوہ کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کردی تھی تو انہوں نے ایک طرح سے اقوام متحدہ میں اپنے تاریخی خطاب کے ردعمل کو روکنے کی پیش بندی کی تھی اگر وہ آرمی چیف کے مدت ملازمت میں توسیع نہ کرتے تو شاید ہی ان کا جنرل اسمبلی میں خطاب اس طرح کا ہوتا اور اگر اس طرح کا خطاب ہوتا تو پھر آج جو مولانا تحریک چلا رہے ہیں اسے نو ستاروں کی تحریک بنانے سے کوئی بھی طاقت نہیں روک سکتی تھی مگر اب ایسا کچھ نہیں ہوگا بلکہ مولانا کا یہ مارچ خود مولانا کے لئے بربادی اور تباہی کا باعث بنے گا اس لئے کہ وہ جھوٹ اور مکر و فریب کی بنیاد پر یہ ساری تحریک چلا کر پاکستان اسلام اور خاص طور سے کشمیر کاز کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں اور یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی، برق رفتار سوشل میڈیا نے سب کچھ کھول کر ملکی عوام کے سامنے رکھ دیا ہے اور پاکستانی عوام بھی اب اتنے بے وقوف نہ رہے کہ وہ ان بکاﺅ مال سیاسی مولویوں کی ڈرامہ بازی میں آئے۔ وہ ان کی اصلیت جان چکے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ مولانا دس سال کشمیر کمیٹی کے سربراہ رہ کر صرف لسی ہی پیتے رہے انہوں نے کوئی ایک اجلاس کشمیر کے مسئلے پر نہیں بلایا۔ اور نہ ہی کبھی کشمیر کا وزٹ کیا اور نہ ہی کبھی حریت کانفرنس والوں سے کوئی ملاقات کی۔ اس لئے ان کے اس مارچ سے کسی کو نہیں خود ان کی اپنی پارٹی کو ہی نقصان پہنچے گا۔ اور اب تو ملک دشمن قوتوں کو بھی معلوم ہوگیا ہے کہ مولانا کے اس مارچ میں اتنا دم غم نہیں ہے کہ وہ عمران خان کی حکومت کو کسی طرح کا کوئی نقصان پہنچا سکے یا پھر عمران خان پر اتنا دباﺅ ڈال سکے کہ وہ عمران خان سے اپنی کوئی بات منوالیں۔ سب کو حکومت کے مستحکم ہونے اور اپوزیشن کے کاغذ کی ناﺅ ہونے کا ادراک ہے اس لئے ان کو اس تحریک سے کوئی خاص اُمید اور توقع نہیں۔ سوائے ایک سیاسی شو ہونے کے۔ جب کہ وہ قوتیں اسٹیبلشمنٹ کے طور طریقوں کو بھی دیکھ چکی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بھی اس تحریک کو خاطر میں نہیں لا رہی ہے۔
سب کو معلوم ہے کہ جب خادم رضوی جیسے شعلہ بیان مذہبی رہنما کو ان کے ساتھیوں سمیت موجودہ حکومت جیل یاترا کروا چکی ہے تو پھر مولانا فضل الرحمن اور ان کے رفقاءکس کھیت کی مولیاں ہیں کہ جن پں ہاتھ ڈالنے سے آسمان زمین پر گر جائے گا۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا۔ دو تین روز کے ہلے گلے کے بعد صورتحال تھم جائے گی اسی طرح کا پلان موجودہ حکومت نے اس فتنے کو دبانے کے لئے بنایا ہے۔ جس کا علم خود مولانا اور ان کے رفقاءکو بھی ہے اس لئے وہ خود بھی اس نہج تک جانے سے بچنا چاہتے ہیں کہ نوبت گرفتاریوں تک پہنچے۔
مجھے اس موقع پر محترمہ بے نظیر بھٹو کی یہ بات شدت کے ساتھ یاد آرہی ہے کہ مولانا فضل الرحمن جب اقتدار سے باہر ہوتا ہے تو بھیڑیا بن جاتاہے اس لئے اسے اقتدار میں شامل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے بن پانی تڑپنے والی مچھلی کی طرح سے مولانا بھی اقتدار کے بغیر تڑپ رہے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ اس سیاسی فتنے کو پھیلنے سے پہلے ہی ختم کردیں، کسی کو بھی مذہب کارڈ استعمال کرکے مذہب کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہ دیں اور پاکستان کی شہ رگ کو نقصان پہنچانے والوں کو نشان عبرت بنانے میں ہی پاکستان کی بقاءمضمر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں