کارنامہ یا ایک نئی جنگ کی شروعات 408

فصلی بٹیرے

بیرونی حملوں سے زیادہ خطرہ اندرونی حملوں سے ہوتا ہے۔ ٹیپو سلطان سے انگریز اگر سو سال بھی جنگ لڑتے تو شکست اور تباہی ہی ان کا مقدر ہوتی لیکن پھر کیا ہوا؟ تاریخ اس پر شرمندہ بھی ہے اور شرمسار بھی۔۔۔ اس لئے کہ ٹیپو سلطان کو شکست اندر سے دی گئی، چالاکی، مکاری، عیاری اور منافقت کا مقابلہ دنیا کے کسی جدید سے جدید ہتھیار اور گولہ بارود سے بھی نہیں کیا جا سکتا۔ عمران خان کی حکومت کو ان دنوں ان ہی خطرات کا سامنا ہے۔ مجھے عمران خان کا اس اندرونی خلفشار کا سامنا کرتا ہوا مشکل دکھائی دے رہا ہے اسے قابو کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا اس لئے کہ کوئی ایک آستین ایک ہی سانپ کے لئے کافی ہوتی ہے مگر ان کی تو دونوں آستینیں سانپوں سے بھری ہوئی ہیں جو بہت ہی بری طرح سے ان کی حکومت کو ڈس رہی ہیں جن کا زہر مہنگائی کی شکل میں پورے ملک میں پھیل رہا ہے۔ صورتحال پوری طرح سے واضح ہو چکی ہے۔ سانپ پوری طرح سے بے نقاب ہو چکے ہیں اور اب علاج یعنی فیصلے کا وقت آچکا ہے۔ مصلحت یا مصالحانہ اقدامات معاملات کو مزید خرابی کی طرف لے جائیں گے۔ ملکی حساس ادارے اس پوری صورتحال سے بمع شواہد کے آگاہ ہیں۔ اس لئے انہیں اس پتلی تماشا کا حصہ بننے کی بجائے آئین کے تحت اپنے حلف کا پاس کرتے ہوئے حکومت وقت کا ساتھ دیتے ہوئے چند مفاد پرست سیاستدانوں کی کوششوں سے عمران خان کی حکومت کو کمپنی کی حکومت میں بدلنے کی سازش کو ناکام بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ پانی بڑی تیزی کے ساتھ اوپر بڑھتا جا رہا ہے یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ یہ شوگر مافیا اور آٹا مافیا کس کے اشارے پر یہ سب کچھ کرکے ملک میں انارکی پھیلانے کی کوشش کررہا ہے؟
کابینہ میں شامل جو وزراءاس مصنوعی بحران کے ذمہ دار ہیں انہیں کابینہ سے نکالنا ہو گا اور جو وزراءکھلم کھلا عمران خان کے وژن کے خلاف بیان بازیاں کرکے حکومت کے خلاف عوام میں رائے عامہ ہموار کررہے ہیں ان سے بھی عمران خان کو اب اپنا پیچھا چھڑانا ہوگا اس لئے کہ ان کا ایجنڈا واضح ہو گیا ہے وہ کابینہ میں شامل ہو کر میر جعفر اور میر صادق والا کام کررہے ہیں۔
حکومت کی مہنگائی کے خاتمے یا روک تھام سے متعلق پالیسیاں وہی لوگ بنا رہے ہیں جو خود اس مہنگائی کے ذمہ دار ہیں تو پھر کس طرح سے مہنگائی کم ہو گی۔۔۔۔؟ پھر کس طرح سے عوام کو کوئی ریلیف ملے گا۔۔۔؟ عمران خان کو وزیر اعظم ہونے کی وجہ سے ساری صورتحال کا علم ہو گیا ہے مگر وہ اب بلیک میلروں کے نرغے میں آچکے ہیں، کوئی کھل کر، اور کوئی چھپ کر انہیں بلیک میل کررہا ہے حالانکہ بلیک میل کرنے والوں کو معلوم ہے کہ عمران خان اپنے ذات کے لئے کچھ بھی نہیں کررہا ہے وہ یہ سب کچھ پاکستانی عوام اور اس ملک کے لئے کررہا ہے۔ عمران خان ملک سے غربت کا خاتمہ چاہتے ہیں، لوگوں کو روزگار دینا چاہتے ہیں اور بے گھروں کو گھر دینا چاہتے ہیں۔ ان کے ارادوں کی راہ میں نہ تو امریکہ آرہا ہے، نہ انڈیا اور نہ ہی یہودی۔ ان کی راہ کی دیوار خود ان کے اپنے ساتھی اپنے اتحادی بن رہے ہیں، دولت کرپشن اور سرکاری خزانہ ہڑپ کرنا جن کا ایمان بن گیا ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ عمران خان کے ہاتھوں ان کے مزارعے ان کے مدمقابل آجائیں اس لئے وہ غریبوں کو دیئے جانے والے مراعات کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن گئے ہیں وہ بلیک میلر راج نیتی کے پرانی کھلاڑی ہیں انہیں معلوم ہے کہ بیساکھیوں پر کھڑی عمران خان کی حکومت کو کب اور کس طرح سے بلیک میل کرنا ہے؟ سو وہ اسی طرح سے عمران خان کو بلیک میل کرتے ہوئے انہیں بندگلی کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ تاش کے پتے پوری طرح سے کھل چکے ہیں۔ عمران خان کو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ خود اپنوں کے ہاتھوں ٹریپ ہو رہے ہیں اب اگر وہ ذرا پیچھے مڑ کر دیکھیں اور غور کریں کہ کس کے کہنےپر کسے پارٹی میں شامل کرکے وزارت یا کوئی اہم ذمہ داری دی گئی تھی تو انہیں سارا کھیل معلوم ہو جائے گا۔ تیزی سے بدلتی ہوئی اس صورتحال سے تو حکومت اور فورسز کے ایک پیج پر ہونے پر بھی سوالیہ نشان کھڑے ہو گئے ہیں اور اب اس نعرے یا بیان میں کوئی وزن نظر نہیں آرہا ہے اس لئے کہ اگر دونوں ایک ہی پیج پر ہوتے تو صورتحال اس طرح کی نہیں ہوتی جو سیاستدان اس موجودہ صورتحال کے ذمہ دار ہیں یا ذمہ دار سمجھتے جاتے ہیں وہ سیاسی زبان میں ”فصلی بٹیرے“ کہلاتے ہیں جو فصل پکتے ہی اسے ہڑپ کرنے کے لئے آجاتے ہیں اس لئے وہ فصلی بٹیرے عمران خان کی حکومت میں بھی فصل ہڑپ کرنے کے لئے شامل ہوئے تھے جب کہ ان فصلی بٹیروں کی یہ خاصیت بھی عام ہے کہ وہ بلا کسی آشیرباد کے فصل برباد کرنے نہیں جاتے اب دیکھنا اور معلوم کرنا یہ ہے کہ ان فصلی بٹیروں کو کس نے فصل برباد کرنے کی آشیرباد دی ہے۔ جس کسی نے بھی یہ کام کیا ہے وہ ہی عمران خان اور ان کی حکومت سے نالان ہے اور وہ یہ سب کچھ عمران خان پر نفسیاتی دباﺅ ڈالنے کے لئے کررہا ہے تاکہ عمران خان سے اپنا وہ کام یا مطالبہ پورا کرواسکے جس کا عمران خان ایک بار نہیں بار بار انکار کر چکا ہے۔ وہ مطالبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے تبدیلی یا وفاقی وزیر قانون کی تبدیلی کا بھی ہو سکتا ہے۔ کچھ بھی ہے اس مہنگائی کا اصل سبب بلیک میلنگ ہے۔ عمران خان کو چاہئے کہ وہ حکمت عملی سے کام لیں، سیاست اور کھیل کے میدان میں بڑا فرق ہوتا ہے، یہاں چوروں، بلیک میلروں اور منافقوں سے آپ کا مقابلہ ہے جو نظر نہ آکر مسلسل حملے کرتے رہتے ہیں ان کے حملوں سے بچنا حکمت کا تقاضا ہے اس لئے موثر ترین حکمت عملی کو اپناتے ہوئے خود کو اور اپنی حکومت کو اس بحران سے نکالیں جو ملکی عوام پر مہنگائی کی آفت مسلط کئے ہوئے ہیں اسی میں سارے پاکستانیوں کی آسودگی مضمر ہے۔ جو آپ کی حکومت کے لئے دعاگو ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں