نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 515

فیصلہ یا مذاق۔۔۔؟

کوئٹہ کے ماڈل کورٹ کے ایک فیصلے نے پاکستان کے عدالتی نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ عدالتی فیصلہ پاکستان کے عدلیہ کے ماتھے پر رسوائی اور نا انصافی کے بدنما دھبے کی طرح سے ہمیشہ جگماتا رہے گا یہ ایک اس طرح کا فیصلہ ہے جو پوری طرح سے زمینی حقائق کے برعکس ہے اور ٹیکنالیٹیز اور وکلاءکے چرب زبانی نے انصاف کا جنازہ پورے دھوم دھام سے نکال دیا ہے۔ یہ ایک اس طرح کا کیس ہے کہ کیمرے کی آنکھ کی وجہ سے اس کے ایک دوچار نہیں بلکہ لاکھوں اور کروڑوں لوگ چشم دید گواہ بن گئے مگر پھر بھی پاکستانی عدالتی نظام شہادتوں کے آگے بے بس ہو کر بے انصافی کا مرتکب ہو گیا ہے اور اسے اس وحشی درندے کو با عزت طور پر بری کرنا پڑا جس نے دن دیہاڑے دولت اور جمہوری حقوق کے نشے میں چور ہو کر ڈیوٹی پر موجود ریاست کے ایک پولیس سارجنٹ کو گاڑی کی ٹکر سے مارا ہوا نکل گیا۔ ٹریفک سارجنٹ عطاءاللہ کے قتل کے مقدمے کے ملزم ایم پی اے مجید اچکزئی کی رہائی پاکستان کے عدلیہ پر ایک بہت بڑا طمانچہ ہے اور اس فیصلے سے پاکستانی عدلیہ کا وقار ملکی عوام کے نظروں میں بہت ہی بری طرح سے مجروح ہوا ہے اور لوگوں کا پولیس کی طرح سے اب عدلیہ پر سے بھی اعتبار اٹھتا چلا جارہا ہے اور یہ تاثر اب پوری شدت کے ساتھ زور پکڑتا جارہا ہے جس طرح سے پاکستان میں قانون کمزوروں اور غریبوں کے بجائے طاقتوروں اور دولت والوں کی محافظ اور ڈھال بنا ہوا ہے اسی طرح سے اب عدلیہ بھی اس معاملے میں قانون پر سبقت لے جانے کی کوشش کررہی ہے۔ کیمرہ جو پوری دنیا اور مہذ معاشروں میں ایک مستند شاہد کا درجہ رکھتی ہے۔ کیمرے کی زد میں آنے والے ملزمان کسی بھی طرح سے سزا سے نہیں بچ پاتے لیکن پاکستان میں پوری طرح سے کیمرے کے زد میں آنے والا یہ ایم پی اے اس کے باوجود صاف طور پر بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ پاکستانی عدلیہ کی ناکامی اور انصاف سے ناواقفیت یا پھر انصاف کو مصلحت کے بوجھ تلے دفنانے کا سنگین المیہ ہے لیکن جو بھی ہے اس سے پاکستان کی عدلیہ کو بہت ہی بڑا دھچکہ لگا ہے اور فیصلے اب عدالتوں کے بجائے کہیں اور کئے جانے کے ارادوں اور طور طریقوں کو تقویت ملے گی۔ اس لئے کہ اس فیصلے سے یہ ہی تاثر ملتا ہے کہ پاکستان کی عدالتوں سے انصاف ہاتھ جوڑ کر اور سر جھکانے والوں کو نہیں بلکہ ترازو کو اپنے ہاتھ سے پکڑنے والوں کو ہی ملتا ہے۔
مجھے یہ سب کچھ اتنے تلخ انداز میں اس لئے لکھنا پڑ رہا ہے کہ ملکی عوام میں اس عدالتی فیصلے سے بہت زیادہ بے چینی اور بے یقینی پھیل گئی ہے جس کا ادراک انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والے معزز ججوں کو نہیں کہ عوام میں اس فیصلے سے کتنا غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ پورا سوشل میڈیا یک زبان ہو کر پاکستان کے عدلیہ کی ایسی کی تیسی کررہا ہے۔ ایک طرح سے وہ اس کی اینٹ سے اینٹ بجا رہا ہے یقیناً اس فیصلے سے ٹریفک سارجنٹ عطاءاللہ کے گھر والوں کو شدید صدمہ پہنچا ہے۔ یہ عدالتی فیصلہ بم کا گولہ بن کر ان پر گرا ہے جس کا فہم و ادراک بھی اس عدالت کو نہیں ہو گا جس نے یہ فیصلہ سنایا ہے۔ معلوم نہیں یہ فیصلہ کن وجوہات کی بناءپر کیا گیا ہے لیکن پاکستانی عوام کی غالب اکثریت کا کہنا ہے کہ اس عدالتی فیصلے میں انصاف کا شائبہ تک نہیں لگتا ہے۔ یہ فیصلہ قبائلی رسم و رواج کو مدنظر رکھ کر کیا ہے۔ پاکستانی عوام کا کہنا ہے کہ پاگل کو نہیں پاگل کی ماں کو مارو کے مصداق اس طرح کے سفاک مجرموں کے بننے کے ذمہ دار وہ قانون دان ہیں جو اس طرح کے وحشی انسانوں کی وکالت کرکے ان کے حوصلہ بڑھانے کے علاوہ ان کے جرائم کرنے کے لئے راہیں ہموار کرنے کا باعث بنتے ہیں اس طرح کے وحشیوں کو قانون و انصاف کی گرفت سے با عزت طورپر بری کروانے والے قانون دان اپنے پیشہ ورانہ فیلڈ میں تو اپنا قد کسی نہ کسی طرح سے اونچا کروانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن سماج معاشرے اور اخلاقیات میں وہ انتہائی پستی میں چلے جاتے ہیں اور مہذب لوگ انہیں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے، انہیں ہی پھر پاگل کی ماں کے نام سے پکارا جاتا ہے انہیں ہی معاشرے کی اصل خرابی کا ذمہ وار ٹھہرایا جاتا ہے۔
مجھے انتہائی دکھ اور افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑا ہے کہ کوئٹہ کے ماڈل کوٹ کے اس فیصلے کے بعد اب تک بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا اور نہ ہی کوئی اطلاع سپریم کورٹ سے ابھی تک آئی ہے حالانکہ سپریم کورٹ تو معمولی باتوں پر بھی سوموٹو لیتی رہی ہے لیکن یہ تو بہت بڑا واقعہ ہے اور اس پر تو سپریم کورٹ کو فوری طور پر نوٹس لیتے ہوئے کوئٹہ کے ماڈل کورٹ کے اس فیصلے کو معطل کر دینا چاہئے جو خود عدلیہ پر سوال بن کر کھڑا ہو گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو اس پر سوموٹو لینا چاہئے۔ یہ ہی ملکی عوام کا مطالبہ ہے اور ایک بدلتے ہوئے پاکستان کا بھی تقاضا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ریاست کے اہلکار کے ساتھ ہونے والی اس نا انصافی کا ازالہ کرے اور عطاءاللہ کے گھر والوں کو انصاف فراہم کرے اور اس تاثر کو غلط ثابت کریں کہ انصاف کمزوروں اور غریبوں کی دسترس سے باہر ہے۔ یہ ہی تحریک انصاف کا نعرہ بھی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں