امریکہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے کارنامے 83

قانون کی حکمرانی مگر کیسے؟

اس وقت پاکستان آئین کی پامالی کی وجہ سے لاقانونیت کے اندھیرے میں ڈوبے جارہا ہے اور یہ سب کچھ محض اس لئے قانون شکن عناصر کررہے ہیں کیونکہ قانون کی حکمرانی یعنی ”رول آف لائ“ کا سب سے زیادہ نعرہ یا پھر دوسرے معنوں میں اسے تکیہ کلام ہی ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے سربراہ عمران خان نے بنایا ہے اسی لئے ان کے مخالفین عمران خان کی ضد یا پھر ان کی مخالفت میں آئین کی خوب کلاس لے رہے ہیں۔ کوئی ایک بھی موقع وہ آئین کی بے حرمتی کا ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، جس طرح سے موجودہ حکمرانوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان کی مٹی پلیت کی ہے اس کی نظیر قیام پاکستان کے بعد سے آج تک ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل سکتی۔ سپریم کورٹ کو ان کے فیصلوں کو یہ حکومت بالکل بھی خاطر میں نہیں لا رہی ہے بلکہ آڑے ہاتھوں سپریم کورٹ کو اس وقت لے رہی ہے کیونکہ آئین کی بحالی اور قانون کی حکمرانی میں جہاں عمران خان کی حیات مضمر ہے وہیں قانون کی حکمرانی میں حکمراں پارٹی کی موت ہے اس وجہ سے اپنی اپنی بقاءکی جنگ لڑتے ہوئے پاکستان کی سیاسی پارٹیاں اس وقت آئین کو فٹ بال بنائے کھیل رہی ہیں۔ وہ آئین کا استقبال لاتوں سے کرکے اپنے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں مگر اس جنگ میں حکمراں پارٹی نے سارے کے سارے حدود ہی کراس کردیئے ہیں اور اس طرح سے کرکے وہ ایک اس طرح کی بندگلی میں داخل ہو چکے ہیں کہ جہاں سے واپسی کا کوئی ایک بھی راستہ نہیں ہے۔ ایسا کرنے والوں کو خود بھی یہ معلوم نہیں تھا کہ معاملہ اس حد تک آگے بڑھ جائے گا، ایسا کرنے والوں نے دراصل آصف علی زرداری ڈاکٹرائن کا استعمال کیا تھا کہ جس طرح سے سوئس بینک میں پڑے اپنے حرام کی کمائی کو بچانے کے لئے اپنے ایک وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی قربانی دی تھی اسی طرح سے نواز شریف نے اپنے بھائی شہباز شریف کی قربانی دینے کا فیصلہ کرلیا تھا مر ان کے یہ ارادے اور خواہشات خود سپریم کورٹ نے ناکام بنا دیئے کہ سپریم کورٹ نے اپنے احکامات کی تعمیل نہ ہونے کی صورت میں توہین عدالت کا جرم ہونے کے باوجود انتہائی صبر و تحمل کا مظاہرہ کرکے حکمران پارٹی کو مشکل میں ڈال دیا کہ اب وہ اس کے بعد کیا کریں۔۔۔؟
کیونکہ ان پر اب توہین عدالت کی تلوار لٹک رہی ہے اور کسی بھی وقت وہ تلوار ان پر گر سکتی ہے۔ ان کی نا اہلی اور انہیں جیل بھی ہو سکتی ہے اس وجہ سے اب وزیر اعظم سمیت پوری کی پوری کابینہ ذہنی دباﺅ کا شکار نظر آرہی ہے کہ وہ اس موقع پر کیا کرے کیونکہ وہ ایک کے بعد ایک غلطی کرتی چلی جارہی ہے۔ جس میں ان کی عدلیہ سے اندرونی معاملات متعلق قانون سازی بھی شامل ہے جس پر سپریم کورٹ پہلے ہی ایکشن لے کر حکم امتناع جاری کرچکی ہے جس کے ہوئے ہوئے قانون سازی نہیں کی جا سکتی۔ موجودہ حکومت کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ وہ اعلیٰ عدلیہ کے بنچ بنائے جانے پر اپنے تحفظات کا اظہار کررہی ہے جو ان کا ڈومین نہیں ہے بلکہ یہ خالصتاً سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا استحقاق ہے کہ وہ کس کو بنچ میں شامل کرے یا نہ کرے۔ اور کسے بنچ کا حصہ بنائے، فل کورٹ بنانا یا نہ بنانا بھی چیف جسٹس کا استحقاق ہے مگر موجودہ کابینہ اسے اپنا استحقاق خیال کرتے ہوئے ہر معمالے پر سپریم کورٹ کے خلاف قرارداد پاس کروالیتی ہے اس طرح سے حکمراں پوری طرح سے سپریم کورٹ کے خلاف میدان میں آگئے ہیں۔ حکمراں پارٹی پوری طرح سے سپریم کورٹ کو متنازعہ بنانے کی کوشش کررہی ہے کیونکہ سپریم کورٹ اس وقت آئین کی سربلندی کے لئے کارروائی کررہی ہے اور قانون کی بالادستی کے لئے اپنا کردار ادا کررہی ہے۔ قانون کی حکمرانی میں ہی پاکستان کی سلامتی اور بقاءمضمر ہے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان عمر عطا بندیال کو چاہئے کہ وہ بلا کسی خوف و خطر آئین کی بالادستی کے لئے اپنا کردار ادا کریں، پوری قوم اس وقت اپنی سپریم کورٹ کی پشت پر کھڑی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں