نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 132

قانون کی حکمرانی میں رکاوٹ کون؟

پاکستان اس وقت سیلاب میں ڈوب رہا ہے، ہزاروں لوگ سیلابی ریلے میں بہہ کر ہلاک اور ہزاروں لاپتہ ہونے کے ساتھ لاکھوں لوگ بے گھر ہو کر کھلے آسمان تلے آگئے۔ ملک میں حکومت نامی کوئی شے نہیں، مصیبت زدہ لوگ بے بسی لاچاری اور بے کسی کی تصویر بن کر رہ گئے، ملک میں آئی ہوئی اس صغری قیامت جیسی صورتحال میں پاکستانی حکومت اور پاکستانی عدلیہ کی ترجیحات کا ذرا اندازہ لگائیں کہ حکومت پاکستان کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ سب سے بڑا ایشو شہباز گل بن گیا۔ شہباز گل کو حراست میں رکھ کر ان پر وحشیانہ تشدد کرنا ہی اس وقت حکومت پاکستان کا سب سے بڑا کارنامہ بن گیا ہے کہ ایک اس طرح کا کارنامہ کہ اس کو سرانجام دیئے بغیر موجودہ حکومت کا مزید زندہ رہنا یا خود کو برقرار رکھنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہو جائے گا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان سیلاب میں ڈوب رہا ہے، لاکھوں لوگ بے گھر ہونے کے بعد ڈوبنے جارہے ہیں، حکومت کو ان کی کوئی پرواہ نہیں، انہیں غم اور دُکھ اس بات کا ہے کہ کہیں شہباز گل ان کے شکنجے سے نکلنے نہ پائے اس وجہ سے وہ اپنی تمام تر حکومتی مشینری شہباز گل کو اپنے حراست میں رکھنے اور ان پر وحشیانہ تشدد کرنے پر صرف کررہے ہیں، یہ ہی حال پاکستان کی عدلیہ کا ہے، ملک پر آئی اس مشکل گھڑی میں پاکستانیوں کی زندگیوں سے زیادہ عدلیہ کو خوف کے بل بوتے پر قائم جھوٹی آن و شان کی پڑی ہے کہ کسی نے ان کی توہین یا عزت کی دھجیاں بکھیرنے کی ہمت و جرات کیوں کی۔ عدلیہ نے باقی سارے مقدمے چھوڑ کر برق رفتاری کے ساتھ ایک بہت بڑا بنچ بنا کر توہین عدالت کے مقدمہ کی سماعت شروع کردی ہے جیسے یہ توہین عدالت نہیں ہوا کسی دشمن ملک نے پاکستان پر ایٹم بم گرا دیا ہو، جس کی وجہ سے عدلیہ اتنی مچل رہی ہے، اتنی تڑپ رہی ہے، حکومت اور عدلیہ کا اپنا یہ طرز عمل پاکستانی عوام میں بالخصوص اور پوری دنیا میں بالعموم جگ ہنسائی کا باعث بن رہا ہے، یہ طرز عمل ان دونوں حکومتی اداروں کی خود غرضی اور بے حسی کی عکاسی کررہا ہے کہ پورا ملک نا گہانی آفت کی زد میں ہے، بچے بوڑھے اور عورتیں سیلاب میں ڈوب رہی ہیں، جس کی نہ تو حکومت کو کوئی پرواہ ہے اور نہ ہی اعلیٰ عدلیہ کو۔۔۔۔
وہ دونوں تو اپنے اپنے ٹارگٹ کو سر کرنے پر لگے ہوئے ہیں، جن ملکوں میں اس طرح کے ادارے ہوں ان ملکوں کو پھر نہ تو کسی دشمن کی ضرورت ہے اور نہ ہی وہ پھر قدرتی آفات کی شکل میں انہیں قدرت کی جانب سے بھجوائے جانے والے پیغامات کو سمجھنے کی کوئی اہلیت ہوتی ہے۔ یہ سیلاب قدرت کی جانب سے نا عاقبت اندیش حکمرانوں کو قدرت کا ایک واضح پیغام ہے کہ وہ جس ڈگر پر چل رہے ہیں وہ تباہی کا راستہ ہے، جسے فوری طور پر ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ قانون کی حکمرانی کا نہ ہونا ہے، معاشی مسائل ہو یا اخلاقی بے راہ روی ہو یا پھر سیاسی دنگا کشی ہو یہ سارے مسائل ملک میں قانون کی حکمرانی کا نہ ہونا ہے۔ غریب کے لئے الگ اور اشرافیہ کے لئے الگ قانون کا ہونا ہے، چھوٹا مجرم جیل میں اور بڑا مجرم ایوان صدر اور ایوان وزیر اعظم میں ہو، اس نا انصافی نے جہاں ماضی کی امتوں کو تباہی کا نشان بنایا وہی دور حاضر میں بھی پاکستانی عوام سمیت دوسرے ان ملکوں کو تباہی کی جانب پہنچا دیا جہاں اس طرح کی حکومتیں چل رہی ہیں اس لئے ارباب اختیار کو چاہئے کہ وہ اب بھی موقع ہے کہ وہ اپنی ترجیحات بدل ڈالیں۔ ملکی عوام پر آئی اس مشکل گھڑی میں ان کا سہارا بن کر انہیں اس عذاب سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کریں اور ملک میں قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے لئے راہیں ہموار کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں