نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 213

قانون کی حکمرانی

ایک قانون کی بالادستی کا نعرہ آمر ڈکٹیٹر ضیاءنے بھی اپنے مخالف قائد جمہوریت ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر چڑھانے سے پہلے اور اس کے بعد لگایا تھا اور ایک بار پھر یہ نعرہ موجودہ غیر روایتی وزیر اعظم عمران خان نے لگایا ہے۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں ایک کتاب کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے اپنے اس بیانیہ کو جن سنہرے لفظوں میں بیان کیا وہ قارئین کی نذر کیے دیتا ہوں۔ملک میں کوئی بھی قانون سے بڑا نہیں، تین سال سے یہ ہی جنگ چل رہی ہے، وہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کو چیلنج کرنے سیاست میں آئے تھے، جو کھلاڑی اپنے لئے کھیلتا ہے اس کی کبھی عزت نہیں ہوتی، قومیں انہیں یاد رکھتی ہیں جو دوسروں کے لئے کچھ کرتے ہیں۔ دنیا میں بڑے کام کرنے والا ہمیشہ بڑا سوچتا ہے، ہم مثبت سوچ سے ہی آگے بڑھ سکتے ہیں، ہم نے اپنے ملک کے ساتھ بہت ظلم کیا ہے، پاکستان میںہم نے ہر فیلڈ میں انڈر پرفارم کیا ہے جب کہ یہاں ہر شعبے میں بہت صلاحیت ہے، اصل جدوجہد طاقتور کو قانون کے نیچے لانے کی ہیں۔ پاکستان میں کوئی بھی قانون سے بڑا نہیں ہے، تین سال سے یہ ہی جنگ چل رہی ہے، مہذب معاشرے میں اور بنانا ری پبلک میں سب سے بڑا فرق ہی انصاف کا ہے۔ قانون کی حکمرانی سے ملک ترقی کرتے ہیں، طاقت کی حکمرانی جنگل کا قانون ہے، جن معاشروں میں قانون اور انصاف نہیں ہوتا وہ ملک تباہ ہو جاتا ہے، چھوٹے چوروں کی چوری سے ملک تباہ نہیں ہوتے، جب حکمراں اور طاقت ور لوگ چوری کرتے ہیں تب ملک کی تباہی شروع ہو جاتی ہے۔ مغرب میں کوئی کرپٹ کو معاف نہیں کرتا۔ وہاں کوئی ٹی وی پر چلا جائے تو اس کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو اسحاق ڈار کے ساتھ ہوا۔ دو خاندانوں نے اداروں کو تباہ کردیا یہاں ان کے حامی کہتے ہیں کہ کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے۔ ایک زرداری سب پر بھاری کے نعرے لگتے ہیں۔ آخر میں عمران خان نے استفسار کیا کہ اگر میری چھٹیاں اور شاپنگ لندن میں ہوں گی تو میں کیوں ملک کا سوچوں گا۔
قارئین عمران خان کی بات اتنی ہی حقائق پر مبنی ہیں جس طرح سے سورج کا مشرق سے نکلنا ایک حقیقت ہے ان کا آخر میں کہنا کہ اگر شاپنگ اور چھٹیاں لندن میں گزارنے والا ملک کے بارے میں نہیں سوچ سکتا ایک تلخ حقیقت ہے یہ طرز عمل اس طرح کے کرنے والے کو سوائے ”وائس رائے“ کے اور کیا ثابت کرتا ہے، اس لئے کہ ماضی کے وائس رائے اور سول سروس کے افسران اور خود ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازمین میں یہ ہی سب کچھ تو کرتے تھے جو پاکستان کے لٹیرے حکمران کرتے چلے آرہے ہیں جو سالہا سال سے پاکستان میں حکمرانی کرنے کے بعد سوائے لوٹ مار کے اور کچھ نہیں کرتے اور اپنا لوٹا ہوا مال وہ لندن اور دوسرے مغربی ممالک لے جا کر وہاں ڈمپ کیا کرتے تھے اور وہیں اپنی باقی ماندہ زندگی عیش و عشرت کے ساتھ گزارتے تھے۔ انہیں پاکستان یا پاکستانی عوام کی بالکل بھی فکر نہیں ہوا کرتی تھی کہ وہ کس طرح سے جیتے ہیں ان کے مسائل کیا ہیں انہیں ان کی بالکل بھی پرواہ نہیں ہوتی اس لئے کہ ان کا نہ تو ذہنی اور نہ ہی جسمانی واسطہ یا تعلق نہ تو ملک کے ساتھ رہتا اور نہ ہی ملکی عوام کے ساتھ۔۔۔
اس لئے میں انہیں گلمے کے پودے کہتا تھا ان کی جڑیں نہ تو عوام میں ہوتی تھیں اور نہ ہی اس ملک میں۔ جس کے وہ بدقسمتی سے حکمران بن جاتے تھے۔ عمران خان کا یہ کہنا سو فیصد درست ہے کہ قانون کی حکمرانی کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کرتا خود قرآن کریم میں توازن کو حیات اور عدم توازن کو تباہی قیامت سے تشبیح دی گئی ہے۔ جہاں طاقت میں عدم توازن ہو جائے وہاں بدامنی اور لاقانونیت جنم لیتی ہے اس طرح سے دولت کے عدم توازن غربت اور دوسری معاشرتی بیماریوں کو جنم دینے کا باعث بنتی ہے۔ قانون کی حکمرانی اور طاقت ور لوگوں کو قانون کی حکمرانی کے نیچے لائے بغیر کوئی ملک کوئی بھی مہذب معاشرہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ یہ ہی وطن عزیز کا المیہ ہے کہ یہاں طاقت ور لوگوں کے لئے ان کا اپنا قانون ہے اور غریب اور مظلوم لوگوں کے لئے ان کا اپنا بوسیدہ قانون ہے۔ قانون اور انصاف جسے کمزوروں کے لئے ڈھال کا کردار ادا کرنا چاہئے، بدقسمتی سے پاکستانی معاشرے میں وہی قانون اور انصاف طاقتور لوگوں کے ہتھیار کا کردار ادا کرتی ہے اور قانون و انصاف کو قدموں کی ٹھوکر بنانے والے ہی قانون و انصاف کو ان کے سب سے بڑے طلبگاروں یعنی کمزوروں اور لاچاروں پر چابک کی طرح سے برساتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے پاکستانی معاشرے میں قانون اور انصاف اپنی افادیت جمہوریت کی طرح سے کھو چکی ہے۔ پسے ہوئے لوگوں کو سب سے زیادہ خوف و خطرہ ڈاکوﺅں اور دہشت گردوں سے زیادہ خود قانون یعنی پولیس والوں اور ان کی وردیوں سے آتا ہے اس لئے کہ یہ پولیس والے ہی ظالموں اور لٹیروں کے طرف دار اور ان کے ساتھی بن کر قانونی طریقے سے مظلوموں اور کمزوروں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ان سے جیلیں بھر رہے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کا یہ ویژن اور یہ بیانیہ کہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی ہونی چاہئے بہت ہی عمدہ اور اچھا ہے بشرطیکہ اسے اس کی روح کے مطابق نافذ العمل کیا جائے۔ سابقہ آمر ڈکٹیٹر جنرل ضیاءکی طرح سے نہیں کہ قانون کی بالادستی کی بھینٹ انہں نے اس دور کے سب سے زیادہ دلعزیز شخصیت قائد جمہوریت ذوالفقار علی بھٹو کو چڑھا دیا تھا۔ عمران خان کو صرف اور صرف قانون کی حکمرانی کے لئے ہی اب اپنی ساری توانائیاں صرف کرنی چاہئے اس لئے کہ قانون کی حکمرانی سے ہی ایک شفاف اور بے داغ جمہوریت بھی پروان چڑھے گی، یہ ہی وقت اور حالات کے علاوہ نئے بدلتے ہوئے پاکستان کا تقاضا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں